سایہ تھا میرا اور مرے شیدائیوں میں تھا
سایہ تھا میرا اور مرے شیدائیوں میں تھا
اک انجمن سا وہ مری تنہائیوں میں تھا
چھنتی تھی شب کو چاندنی بادل کی اوٹ سے
پیکر کا اس کے عکس سا پرچھائیوں میں تھا
کوئل کی کوک بھی نہ جواب اس کا ہو سکی
لہرا ترے گلے کا جو شہنائیوں میں تھا
جس دم مری عمارت دل شعلہ پوش تھی
میں نے سنا کہ وہ بھی تماشائیوں میں تھا
اٹھا اسی سے زیست کے احساس کا خمیر
جو درد دل کے زخم کی پہنائیوں میں تھا
جب شہر میں فساد ہوا تو امیر شہر
دیکھا گیا کہ آپ ہی بلوائیوں میں تھا
بے حد حسین تھا مگر آزرؔ مجھے تو بس
یاد اس قدر رہا کہ وہ ہرجائیوں میں تھا