Rasa Rampuri

رسا رامپوری

رسا رامپوری کی غزل

    دل میں کسی کو رکھو دل میں رہو کسی کے

    دل میں کسی کو رکھو دل میں رہو کسی کے سیکھو ابھی سلیقے کچھ روز دلبری کے فرقت میں اشک حسرت ہم کیا بہا رہیں ہیں تقدیر رو رہی ہے پردے میں بیکسی کے آئے اگر قیامت تو دھجیاں اڑا دیں پھرتے ہیں جستجو میں فتنے تری گلی کے دے کر مجھے تسلی بے چین کر رہے ہو ہنستے ہو وعدہ کر کے قربان اس ہنسی ...

    مزید پڑھیے

    دشمن کی بات جب تری محفل میں رہ گئی

    دشمن کی بات جب تری محفل میں رہ گئی امید یاس بن کے مرے دل میں رہ گئی تو ہم سے چھپ گیا تو تری شکل دل فریب تصویر بن کے آئینۂ دل میں رہ گئی نکلا وہاں سے میں تو مرے دل کی آرزو سر پیٹتی ہوئی تری محفل میں رہ گئی دیکھا جو قتل عام تو ہر لاش پر اجل اک آہ بھر کے کوچۂ قاتل میں رہ گئی میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    جی چاہا جدھر چھوڑ دیا تیر ادا کو

    جی چاہا جدھر چھوڑ دیا تیر ادا کو چٹکی میں اڑائے ہوئے پھرتے ہیں قضا کو سجدوں کا بھی موقع نہ رہا اہل وفا کو پھر پھر کے مٹاتے ہیں وہ نقش کف پا کو جب پاتے ہیں سر دھنتے ہی پاتے ہیں رساؔ کو سمجھائے کہاں تک کوئی اس مرد خدا کو یوں ہم نے چھپائی ہے ترے وصل کی حسرت جس طرح چھپاتا ہے خطاوار ...

    مزید پڑھیے

    وہ خوش کسی کے ساتھ ہیں ناخوش کسی کے ساتھ

    وہ خوش کسی کے ساتھ ہیں ناخوش کسی کے ساتھ ہر آدمی کی بات ہے ہر آدمی کے ساتھ لاکھوں جفائیں سیکڑوں صدمے ہزار غم اک آسمان ٹوٹ پڑا زندگی کے ساتھ ممکن نہیں کہ دل سے نکل جائے آرزو یہ میرے دم کے ساتھ ہے یہ میرے جی کے ساتھ اب کیا کروں میں شکوۂ بیداد حشر میں منہ میرا تک رہے ہیں وہ کس بیکسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2