سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے
سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے آگے بڑھوں تو پیچھے سرکتے ہیں راستے آنسو ہزار ٹوٹ کے برسیں تو پی کے چپ اک قہقہہ اڑے تو کھنکتے ہیں راستے سمجھو تو گھر سے گھر کا تعلق انہی سے ہے دیکھو تو بے مقام بھٹکتے ہیں راستے دامن میں ان کے پاؤں کے ایسے نشاں بھی ہیں رہ رہ کے جن کے دم سے دمکتے ...