Ram Parkash Rahi

رام پرکاش راہی

رام پرکاش راہی کی غزل

    سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے

    سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے آگے بڑھوں تو پیچھے سرکتے ہیں راستے آنسو ہزار ٹوٹ کے برسیں تو پی کے چپ اک قہقہہ اڑے تو کھنکتے ہیں راستے سمجھو تو گھر سے گھر کا تعلق انہی سے ہے دیکھو تو بے مقام بھٹکتے ہیں راستے دامن میں ان کے پاؤں کے ایسے نشاں بھی ہیں رہ رہ کے جن کے دم سے دمکتے ...

    مزید پڑھیے

    کس نے کہا تھا شہر میں آ کر آنکھ لڑاؤ دیواروں سے

    کس نے کہا تھا شہر میں آ کر آنکھ لڑاؤ دیواروں سے سایہ سایہ بھٹک بھٹک اب سر ٹکراؤ دیواروں سے گھات کی پلکیں جھپک رہے ہیں کھل کھل کر انجان دریچے زخموں کے اب پھول سمیٹو پتھر کھاؤ دیواروں سے قطع نظر کے بعد بھی اکثر بڑھ جاتی ہے دل کی دھڑکن آنکھ اٹھائے کیا بنتا ہے دل ہی اٹھاؤ دیواروں ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک

    تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک ایسا چھلکا زخم کہ سارا پلکوں سے بہہ گیا نمک حلوے مانڈے سب میٹھے تھے کھا پی کر وہ بھول گئے تلخ عناصر کا سنگم تھا رگ رگ میں رہ گیا نمک زخموں کے گل کیا دھوئے گی رت رسیا برسات جہاں ہر موسم ہر آن بکھیرے چلتی پھرتی ہوا نمک انگڑائی کی محرابوں ...

    مزید پڑھیے