Raj Bahadur Saxena Auj

راج بہادر سکسینہ اوجؔ

راج بہادر سکسینہ اوجؔ کی غزل

    کس میں خوبی ہے جلانے میں کہ جل جانے ہیں

    کس میں خوبی ہے جلانے میں کہ جل جانے ہیں شمع میں سوز زیادہ ہے کہ پروانے میں لذت درد کو اک خار میسر نہ ہوا دل کا کانٹا نہ نکالا گیا ویرانے میں میرے پر درد بیاں نے مجھے مرنے نہ دیا موت کو نیند سی آئی مرے افسانے میں آب کوثر تو نہ تھا چشم سیہ میں تیری پڑ گئی جان تجھے دیکھ کے دیوانے ...

    مزید پڑھیے

    قدر وفا بھی ہوگی کسی دن جفا کے بعد

    قدر وفا بھی ہوگی کسی دن جفا کے بعد لائے گا رنگ خون شہیداں حنا کے بعد ہوتا ہے انقلاب جہاں ہر ادا کے بعد بے باک بھی بنوگے کبھی تم حیا کے بعد لائے ہیں پھول اہل محبت کی قبر پر کیا یاد آ گیا انہیں ترک جفا کے بعد کعبہ میں مجھ سے شان بتاں پوچھتے ہو شیخ توبہ میں ان کا ذکر کروں گا خدا کے ...

    مزید پڑھیے

    لوٹ لے سرمایۂ دل لوٹ لے

    لوٹ لے سرمایۂ دل لوٹ لے اے فریب‌ چشم قاتل لوٹ لے مجھ سے فیاض محبت ہے کوئی کہہ رہا ہوں خود مرا دل لوٹ لے یہ تمنا ہے کہ کوئی راہزن کاروان منزل دل لوٹ لے لطف جب ہے تیری دزدیدہ نظر آنکھ ملتے ہی مرا دل لوٹ لے صورت پروانہ ہوں میں بزم میں مجھ کو تو اے شمع محفل لوٹ لے حسن کی آزادیوں کا ...

    مزید پڑھیے

    یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج

    یہ قطرۂ شبنم نہیں اے سوز جگر آج ڈوبی ہوئی آئے ہے پسینوں میں سحر آج بے وجہ نہیں فطرت شوخی کا گزر آج تم آنکھ ملا کر جو چراتے ہو نظر آج وہ آئے عیادت کو تو آئی ہے قضا بھی مہماں ہوئے اک وقت میں دو دو مرے گھر آج ارمان نکلنے دیے کس سوختہ دل کا ہے وصل کی شب بول نہ اے مرغ سحر آج وہ کعبۂ دل ...

    مزید پڑھیے

    آغوش احتیاط میں رکھ لوں جگر کہیں

    آغوش احتیاط میں رکھ لوں جگر کہیں ڈرتا ہوں لے اڑے نہ کسی کی نظر کہیں غربت میں اجنبی کا بھی ہوتا ہے گھر کہیں دن بھر کہیں گزاریے یا رات بھر کہیں اغیار ہوں کہیں بت شوریدہ سر کہیں سب کچھ ہو آہ میں تو ہو اپنی اثر کہیں یوں اف نہ باغ دہر میں بربادی ہو کوئی بلبل کا آشیاں ہے کہیں بال و پر ...

    مزید پڑھیے