Rais Siddiqui

رئیس صدیقی

رئیس صدیقی کی غزل

    جگر سے جان سے پیارے کہاں ہے کچھ تو بتا

    جگر سے جان سے پیارے کہاں ہے کچھ تو بتا ہر ایک دل کے سہارے کہاں ہے کچھ تو بتا تری تلاش میں کھوئی ہوئی ہے چشم فلک زمیں کے راج دلارے کہاں ہے کچھ تو بتا مسرتوں سے تھا لبریز دل کا پیمانہ مری خوشی کے سہارے کہاں ہے کچھ تو بتا جو تو نہیں ہے تو پھیلی ہوئی ہے تاریکی مرے چمکتے ستارے کہاں ہے ...

    مزید پڑھیے

    ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے

    ترے سلوک کا غم صبح و شام کیا کرتے ذرا سی بات پہ جینا حرام کیا کرتے کہ بے ادب کا بھلا احترام کیا کرتے جو ناستک تھا اسے رام رام کیا کرتے وہ کوئی میرؔ ہوں غالبؔ ہوں یا انیسؔ و دبیرؔ سخن وری سے بڑا کوئی کام کیا کرتے نہ نیند آنکھوں میں باقی نہ انتظار رہا یہ حال تھا تو کوئی نیک کام کیا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا میں جو سمجھتے تھے بار گراں مجھے

    دنیا میں جو سمجھتے تھے بار گراں مجھے وہ ہی سنا رہے ہیں مری داستاں مجھے مڑ مڑ کے دیکھتا تھا ترے نقش پا کو میں تنہا سمجھ کے چل دیا جب کارواں مجھے دو گام میرے ساتھ چلے راہ عشق میں ملتا نہیں ہے ایسا کوئی راز داں مجھے خاموشیوں سے رابطہ قائم جو کر لیا دنیا سمجھ رہی ہے ابھی بے زباں ...

    مزید پڑھیے

    بس اک خطا کی مسلسل سزا ابھی تک ہے

    بس اک خطا کی مسلسل سزا ابھی تک ہے مرے خلاف مرا آئینہ ابھی تک ہے سبھی چراغ اندھیروں سے مل گئے لیکن حریف موج ہوا اک دیا ابھی تک ہے مٹا سکے نہ اسے حادثوں کے دریا بھی وہ ایک نام جو دل پر لکھا ابھی تک ہے گری ہے میری جو دستار غم ہوا لیکن یہ شکر کرتا ہوں بند قبا ابھی تک ہے نظر اٹھا کے ...

    مزید پڑھیے

    اور کچھ تیز چلیں اب کے ہوائیں شاید

    اور کچھ تیز چلیں اب کے ہوائیں شاید گھر بنانے کی ملیں ہم کو سزائیں شاید بھر گئے زخم مسیحائی کے مرہم کے بغیر ماں نے کی ہیں مرے جینے کی دعائیں شاید میں نے کل خواب میں خود اپنا لہو دیکھا ہے ٹل گئیں سر سے مرے ساری بلائیں شاید میں نے کل جن کو اندھیروں سے دلائی تھی نجات اب وہی لوگ مرے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا جسم ہوا جان و دل کسی کے ہوئے

    کسی کا جسم ہوا جان و دل کسی کے ہوئے ہزار ٹکڑے مری ایک زندگی کے ہوئے بدل سکا نہ کوئی اپنی قسمتوں کا نظام جو تو نے چاہا وہی حال زندگی کے ہوئے جو سارے شہر کے پتھر لیے تھا دامن میں تمام شیشے طرفدار بس اسی کے ہوئے بدلتے وقت نے تقسیم کر دیا مجھ کو تھے میرے خواب جو تیرے وہی کسی کے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک منظر بدلتا جا رہا ہے

    ہر اک منظر بدلتا جا رہا ہے یہ لمحہ بھی گزرتا جا رہا ہے ترا احساس اک مدت سے میری رگ و پے میں اترتا جا رہا ہے شکایت زندگی سے کرتے کرتے وہ اک اک لمحہ مرتا جا رہا ہے پڑا ہے جب سے تیرا عکس اس میں یہ آئینہ سنورتا جا رہا ہے ورق یادوں کے کس نے کھول ڈالے مرا کمرہ مہکتا جا رہا ہے یہ دنیا ...

    مزید پڑھیے

    شامل تو مرے جسم میں سانسوں کی طرح ہے

    شامل تو مرے جسم میں سانسوں کی طرح ہے یہ یاد بھی سوکھے ہوئے پھولوں کی طرح ہے دل جس کا نہیں حرف محبت سے شناسا وہ زندگی ویران مزاروں کی طرح ہے فطرت میں ہے دولت کے کھلونوں سے بہلنا اک دوست مرا شہر میں بچوں کی طرح ہے ہر رات چراغاں سا رہا کرتا ہے گھر میں اک زخم مرے دل میں ستاروں کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    سبھی اندھیرے سمیٹے ہوئے پڑے رہنا

    سبھی اندھیرے سمیٹے ہوئے پڑے رہنا چراغ راہ گذر اس طرح بنے رہنا یہ خواہشوں کا سمندر سراب جیسا ہے سبھی کا اپنے تعاقب میں بھاگتے رہنا نئی بہار کی خوشیاں نصیب ہوں لیکن نشانیاں گئے موسم کی بھی رکھے رہنا اداس چہرے کوئی بھی نہیں پڑھا کرتا نمائشوں کی طرح آپ بھی سجے رہنا میں اتنی ...

    مزید پڑھیے

    ہنسی ہنسی میں ہر اک غم چھپانے آتے ہیں

    ہنسی ہنسی میں ہر اک غم چھپانے آتے ہیں حسین شعر ہمیں بھی سنانے آتے ہیں ہمارے دم سے ہی آباد ہیں گلی کوچے چھتوں پہ ہم ہی کبوتر اڑانے آتے ہیں دریچہ کھول دیا تھا ترے خیالوں کا ہوا کے جھونکے ابھی تک سہانے آتے ہیں وصال ہجر وفا فکر درد مجبوری ذرا سی عمر میں کتنے زمانے آتے ہیں حسین ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2