Rahmat yusuf Zai

رحمت یوسف زئی

رحمت یوسف زئی کی نظم

    رنگ لہو کا

    آخر کب تک دور چناروں کے پیچھے ٹھٹھری اکڑی ایک معصوم سی چنری ہے جس کے رنگوں میں اب تک بھی وہی تازگی وہی دمک اور وہی پھبن ہے ہاں اس چنری کے رنگوں کے بیچ میں اک اور رنگ نے مسکن بنا لیا ہے رنگ لہو کا جو چنری سے رستا رستا برف کے ذروں میں گھل مل کر تھم سا گیا ہے جم سا گیا ہے جیسے آنسو اور ...

    مزید پڑھیے

    سمندر آج چپ ہے

    سمندر آج چپ ہے کوئی ہلچل ہی نہ لہروں کا ترنم ایک سناٹا ہوا بھی سرسرانا بھول کر ہے دم بخود سی جھاگ بھی اڑنا مچلنا بھول کر چپ چاپ لپٹا ہے چٹانوں سے یہ خاموشی کسی طوفان کی آمد کا شاید پیش خیمہ ہے فضا کی صد ہزار آنکھیں ہیں لبریز آنسوؤں سے جو ٹپک پڑتے ہیں شبنم بن کے اور پھر جذب ہو جاتے ...

    مزید پڑھیے

    ادھوری آرزو

    کبھی میں سوچتا ہوں خول سے اپنے نکل کر اک پرندے کی طرح بادل کو چھو لوں یا کبھی جھرنے میں بچوں کی طرح کلکاریاں بھر کر اچھالوں آپ اپنے جسم پر پانی کبھی جا کر سمندر کے کنارے ریت پر لیٹوں گھروندے ریت کے تعمیر کر کے ایک ٹھوکر سے گرا دوں یا کسی مصروف سی شہہ راہ پر جاؤں وہاں چیخوں ہنسوں ...

    مزید پڑھیے

    یافت اور نایافت کا مسئلہ

    یافت اور نایافت میں الجھے ہوئے یہ سوچتے رہتے ہیں ہم اکثر کہ پانا آپ اپنے کو نہیں آساں مہد سے تا لحد ہم ڈھونڈتے رہتے ہیں خود کو کون جانے کب ہماری یافت کا لمحہ کسی پارس کی صورت ہم سے ٹکرائے نہ جانے کب ہم اپنے آپ کو پا لیں مگر یہ بھی ضروری تو نہیں ہوگا کہ پھر سے گم نہ کر دیں خود کو اس ...

    مزید پڑھیے

    ایک چھوٹی سی نظم

    میں نے اپنے آپ کو کنویں میں ڈھکیلا اور قہقہے لگائے کیوں کہ میں نہیں جانتا تھا کہ یہ ایسا کنواں ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں میں سمجھتا تھا کہ میں نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اب میرے قہقہوں کو لوگ سنتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں

    مزید پڑھیے