Rahat Indori

راحت اندوری

مقبول شاعر اور فلم نغمہ

Popular poet and film lyricist.

راحت اندوری کی غزل

    مجھے ڈبو کے بہت شرمسار رہتی ہے

    مجھے ڈبو کے بہت شرمسار رہتی ہے وہ ایک موج جو دریا کے پار رہتی ہے ہمارے طاق بھی بیزار ہیں اجالوں سے دیے کی لو بھی ہوا پر سوار رہتی ہے پھر اس کے بعد وہی باسی منظروں کے جلوس بہار چند ہی لمحے بہار رہتی ہے اسی سے قرض چکائے ہیں میں نے صدیوں کے یہ زندگی جو ہمیشہ ادھار رہتی ہے ہماری ...

    مزید پڑھیے

    کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں

    کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں غضب کرتے ہیں آپ کی نظروں میں سورج کی ہے جتنی عظمت ہم چراغوں کا بھی اتنا ہی ادب کرتے ہیں ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے ہم قلندر ہیں شہنشاہ لقب کرتے ہیں دیکھیے جس کو اسے دھن ہے مسیحائی کی آج کل شہر کے بیمار مطب کرتے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو

    کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو یہ سب تمہارے ہی گھر ہیں کسی بھی گھر میں رہو جلا نہ لو کہیں ہمدردیوں میں اپنا وجود گلی میں آگ لگی ہو تو اپنے گھر میں رہو تمہیں پتہ یہ چلے گھر کی راحتیں کیا ہیں ہماری طرح اگر چار دن سفر میں رہو ہے اب یہ حال کہ در در بھٹکتے پھرتے ہیں غموں سے میں نے ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

    گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے نشہ ایسا تھا کہ مے خانے کو دنیا سمجھا ہوش آیا تو خیال آیا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دیوار و در سے پوچھتے ہیں

    اپنے دیوار و در سے پوچھتے ہیں گھر کے حالات گھر سے پوچھتے ہیں کیوں اکیلے ہیں قافلے والے ایک اک ہم سفر سے پوچھتے ہیں کیا کبھی زندگی بھی دیکھیں گے بس یہی عمر بھر سے پوچھتے ہیں جرم ہے خواب دیکھنا بھی کیا رات بھر چشم تر سے پوچھتے ہیں یہ ملاقات آخری تو نہیں ہم جدائی کے ڈر سے پوچھتے ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے

    اندھیرے چاروں طرف سائیں سائیں کرنے لگے چراغ ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنے لگے ترقی کر گئے بیماریوں کے سوداگر یہ سب مریض ہیں جو اب دوائیں کرنے لگے لہو لہان پڑا تھا زمیں پر اک سورج پرندے اپنے پروں سے ہوائیں کرنے لگے زمیں پر آ گئے آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو بری خبر ہے فرشتے خطائیں کرنے ...

    مزید پڑھیے

    صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے

    صرف خنجر ہی نہیں آنکھوں میں پانی چاہئے اے خدا دشمن بھی مجھ کو خاندانی چاہئے شہر کی ساری الف لیلائیں بوڑھی ہو چکیں شاہزادے کو کوئی تازہ کہانی چاہئے میں نے اے سورج تجھے پوجا نہیں سمجھا تو ہے میرے حصے میں بھی تھوڑی دھوپ آنی چاہئے میری قیمت کون دے سکتا ہے اس بازار میں تم زلیخا ہو ...

    مزید پڑھیے

    دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

    دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں یہ مے کدہ ہے وہ مسجد ہے وہ ہے بت خانہ کہیں بھی جاؤ فرشتے حساب ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے بیٹھے کوئی خیال آیا

    بیٹھے بیٹھے کوئی خیال آیا زندہ رہنے کا پھر سوال آیا کون دریاؤں کا حساب رکھے نیکیاں نیکیوں میں ڈال آیا زندگی کس طرح گزارتے ہیں زندگی بھر نہ یہ کمال آیا جھوٹ بولا ہے کوئی آئینہ ورنہ پتھر میں کیسے بال آیا وہ جو دو گز زمیں تھی میرے نام آسماں کی طرف اچھال آیا کیوں یہ سیلاب سا ہے ...

    مزید پڑھیے

    دوستی جب کسی سے کی جائے

    دوستی جب کسی سے کی جائے دشمنوں کی بھی رائے لی جائے موت کا زہر ہے فضاؤں میں اب کہاں جا کے سانس لی جائے بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا یہ ندی کیسے پار کی جائے اگلے وقتوں کے زخم بھرنے لگے آج پھر کوئی بھول کی جائے لفظ دھرتی پہ سر پٹکتے ہیں گنبدوں میں صدا نہ دی جائے کہہ دو اس عہد کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5