نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے
نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے در و دیوار پہ پہرا ابھی تک روشنی کا ہے نہا کر خون میں کانٹوں پہ اکثر رقص کرتا ہوں یہ مستی بے خودی کی ہے یہ نشہ زندگی کا ہے ہے آخر کس لیے قزاق غم پیہم تعاقب میں تصرف میں ہمارے کیا کوئی لمحہ خوشی کا ہے ملوں کس طور میں خود سے تشخص کس طرح ...