نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے
نہ خطرہ تیرگی سے تھا نہ خطرہ تیرگی کا ہے
در و دیوار پہ پہرا ابھی تک روشنی کا ہے
نہا کر خون میں کانٹوں پہ اکثر رقص کرتا ہوں
یہ مستی بے خودی کی ہے یہ نشہ زندگی کا ہے
ہے آخر کس لیے قزاق غم پیہم تعاقب میں
تصرف میں ہمارے کیا کوئی لمحہ خوشی کا ہے
ملوں کس طور میں خود سے تشخص کس طرح ڈھونڈوں
یہاں تو آئنہ در آئینہ چہرہ اسی کا ہے
یہ سوچا ہے کہ چل کر دوستوں کے در پہ دستک دوں
ارادہ آج اپنے آپ سے کچھ دشمنی کا ہے
مری آنکھوں کو نسبت ہے کسی خورشید پیکر سے
نہ یہ شوخی انا کی ہے نہ یہ پرتو خودی کا ہے
یقیں آثار لمحوں پر جو سچ پوچھو تو راز اب تک
حکومت وہم ہی کی ہے تسلط خواب ہی کا ہے