ہوا لوٹے تو پوچھیں
روز و شب کا وقفہ کرب و مسرت شام کہتے ہیں جسے کیوں کر گزاریں قرض سانسوں کا اتاریں یا رخ ہستی نکھاریں کون ہے دل کے سوا اس کرب راز پیکراں میں اپنے ساتھ اب کسے آواز دیں کس کو پکاریں شام بھر کی فرصت غم یوں گزاریں دھول میں اٹے ہوئے اک راستے پر ایک گوشے کے خلا میں کائنات آباد ہے اک چائے ...