Raaz Yazdani

راز یزدانی

  • 1906 - 1963

راز یزدانی کی غزل

    نہیں کہ اپنی تباہی کا رازؔ کو غم ہے

    نہیں کہ اپنی تباہی کا رازؔ کو غم ہے تمہاری زحمت عہد کرم کا ماتم ہے نثار جلوہ دل و دیں ذرا نقاب اٹھا وہ ایک لمحہ سہی ایک لمحہ کیا کم ہے کسی نے چاک کیا ہے گلوں کا پیراہن شعاع مہر تجھے اعتماد شبنم ہے قضا کا خوف ہے اچھا مگر اس آفت میں یہ معجزہ بھی کہ ہم جی رہے ہیں کیا کم ہے وہ رقص ...

    مزید پڑھیے

    احساس بندگی سے بیگانہ کر دیا ہے

    احساس بندگی سے بیگانہ کر دیا ہے افراط بندگی نے دیوانہ کر دیا ہے جو راز اتفاقاً منہ سے نکل گیا تھا وہ راز احتیاطاً افسانہ کر دیا ہے میں نے قدم قدم پر کعبہ بنا بنا کر کعبے میں اہتماماً بت خانہ کر دیا ہے لازم ہے احتیاط اب ہر لفظ گفتگو میں دنیا نے رازؔ کس کو رسوا نہ کر دیا ہے

    مزید پڑھیے

    سوچئے ہم سے تغافل بھی بجا ہے کہ نہیں

    سوچئے ہم سے تغافل بھی بجا ہے کہ نہیں کہ یہی مقصد ارباب فنا ہے کہ نہیں زیست میں لمحۂ اندوہ جفا ہے کہ نہیں اے محبت کوئی تیری بھی خطا ہے کہ نہیں پست کر دیتے ہیں موجوں کو ابھرنے والے ڈوبنا خود نہ ابھرنے کی سزا ہے کہ نہیں چھاؤں میں پھولوں کی آنکھیں تو مچی جاتی ہیں کون دیکھے یہ چمن ...

    مزید پڑھیے

    اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے

    اس در کی سی راحت بھی دو عالم میں کہیں ہے جینا بھی یہیں ہے مجھے مرنا بھی یہیں ہے اب واقف مفہوم وفا قلب حزیں ہے اب آپ کی بیداد بھی بیداد نہیں ہے تم اور مری خانہ خرابی پہ تبسم امید سے بڑھ کر ابھی قدر دل و دیں ہے یا تیرے سوا حسن ہی دنیا میں نہیں تھا یا دیکھ رہا ہوں کہ جو منظر ہے حسیں ...

    مزید پڑھیے