Qamruddin

قمرالدین

قمرالدین کی غزل

    شعلوں کے درمیاں بھی نہیں تھا مجھے ہراس

    شعلوں کے درمیاں بھی نہیں تھا مجھے ہراس اور اس کے بعد کیا ہوا بس کیجیئے قیاس اپنا سنہری سال اور اپنے رو پہلے بال یعنی کہ ہو گئی ہے مری عمر اب پچاس اپنے لہو کی گرمی ہی سب کچھ ہے دوستو اب جس کے بعد کچھ بھی نہیں اون یا کپاس اتنی بہت سی باتوں سے وہ خوش نہ ہو سکا اتنی ذرا سی بات سے وہ ...

    مزید پڑھیے

    کسی بھی زہر سے مجھ کو نہیں کوئی پرہیز

    کسی بھی زہر سے مجھ کو نہیں کوئی پرہیز مگر ہے شرط بس اتنی کہ ہو نہ شہد آمیز وہ ڈر گیا جو نظر آئی فاختہ اس کو وہ جس کے ہاتھ ہمیشہ سے ہی رہے خوں ریز میں خود سمجھ نہ سکا آج تک یہ اپنا طلسم کہ مجھ میں ہے کبھی فرہاد اور کبھی پرویز نمی پسینوں کی ملتی رہی ہے اس کو اور ازل سے باقی ہے اب تک ...

    مزید پڑھیے

    لٹ جاتی ہے ہر چیز وہ تنکا ہو کہ شہتیر

    لٹ جاتی ہے ہر چیز وہ تنکا ہو کہ شہتیر ہاں لٹنے سے رہ جاتی ہے اک درد کی جاگیر اے کاش کوئی کہہ سکے ایسا کوئی اک شعر اک شعر جو فی الفور ہی بن جاتا ہو تصویر سنتور پھیرن قہوہ چنار اور شکارا ان لفظوں سے ابھرا ہے سدا ذہن میں کشمیر گو ذہن کو معلوم ہے اب ساری حقیقت اب بھی مگر اس دل سے ...

    مزید پڑھیے