Qamar Raza Shahzad

قمر رضا شہزاد

قمر رضا شہزاد کی غزل

    اگر مجبور ہفت افلاک ہوتا

    اگر مجبور ہفت افلاک ہوتا ہماری طرح تو بھی خاک ہوتا زمیں تاریک رہتی اور سورج ہمارے جسم کی پوشاک ہوتا کہیں اس داستاں اور خواب کے بیچ ترا ملبوس گل بھی چاک ہوتا ہم اپنا فائدہ بھی سوچ لیتے اگر نقصان کا ادراک ہوتا ذرا موسم بدلتا اور پھر تو ہمارے ہجر میں نمناک ہوتا

    مزید پڑھیے

    تجھے کھو کر کسی سے پیار ہونا چاہیے تھا

    تجھے کھو کر کسی سے پیار ہونا چاہیے تھا ہمیں اتنا تو دنیا دار ہونا چاہیے تھا ابھی تک کھل نہیں پایا کہ تیری داستاں میں ہمارا کون سا کردار ہونا چاہیے تھا کسی کے فیصلے کو مسترد کرنے سے پہلے ہمیں بھی غیر جانب دار ہونا چاہیے تھا کہاں تک اس کنارے پر رہیں گے ہم کہ اب تو یہ دریا بھی ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ خانۂ گمان کو چھوڑ

    آئنہ خانۂ گمان کو چھوڑ تو مرے ذکر میرے دھیان کو چھوڑ خلقت شہر جھوٹ بولتی ہے خلقت شہر کے بیان کو چھوڑ رنج مت کر الاؤ بجھنے کا زخم در زخم داستان کو چھوڑ اس زمیں پر گلاب وصل کھلا بانجھ مٹی کے آسمان کو چھوڑ شام ہونے سے پیشتر شہزادؔ تو بھی اس جسم کے مکان کو چھوڑ

    مزید پڑھیے

    لہو میں تر یہ دیار بھی دیکھنا ہے اک دن

    لہو میں تر یہ دیار بھی دیکھنا ہے اک دن مجھے ترا اختیار بھی دیکھنا ہے اک دن گزرنا ہے ایک راستے سے ہوا کی صورت چراغ کو سوگوار بھی دیکھنا ہے اک دن تلاش کرنی ہے اشک اور آئینے میں نسبت کسی کی آنکھوں کے پار بھی دیکھنا ہے اک دن ابھی تو دنیا کی سرد مہری سے لڑ رہا ہوں سلوک پروردگار بھی ...

    مزید پڑھیے

    کسی عشق و رزق کے جال میں نہیں آئے گا

    کسی عشق و رزق کے جال میں نہیں آئے گا یہ فقیر اب تری چال میں نہیں آئے گا میں منا تو لوں گا اسے مگر وہ انا پرست مری سمت اب کسی حال میں نہیں آئے گا میں کہوں گا حرف طلب کچھ ایسے کمال سے مرا درد میرے سوال میں نہیں آئے گا کبھی اپنی ایک جھلک مجھے بھی نواز دے کوئی فرق تیرے جمال میں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے عکس کو حیران کرنا چاہتا ہوں

    کسی کے عکس کو حیران کرنا چاہتا ہوں میں سنگ و آئنہ یک جان کرنا چاہتا ہوں بلند کرتا ہوں دست دعا کہ جیسے میں کسی کی ذات پر احسان کرنا چاہتا ہوں بہت حقیر ہے لیکن تجھے عطا کر کے میں دل کو تخت سلیمان کرنا چاہتا ہوں مجھے یہ زندگی دشوار بھی قبول مگر کہیں کہیں اسے آسان کرنا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    جو زندگی کے ہر ایک دھارے میں جاگتا ہے

    جو زندگی کے ہر ایک دھارے میں جاگتا ہے ترا بدن اس چراغ پارے میں جاگتا ہے گریز کیسے کرے گا میرے وجود سے تو کہ تیرا سورج مرے ستارے میں جاگتا ہے مجھے خبر ہے خموش سویا ہوا یہ دریا کہیں کسی دوسرے کنارے میں جاگتا ہے بہت کٹھن تو نہیں ہے سچ کو تلاش کرنا کہ یہ لہو کے ہر استعارے میں جاگتا ...

    مزید پڑھیے

    سبھی کچھ خاک میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے

    سبھی کچھ خاک میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے چلو یہ شہر بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے کسی کی گفتگو میں ایک وہ مفہوم ہے جو حقائق سے الگ ترسیل ہوتا جا رہا ہے میں کیسے ترک کر دوں اب کہ یہ کار محبت کسی کے حکم کی تعمیل ہوتا جا رہا ہے میں کیا ترتیب دینا چاہتا ہوں اور مجھ سے یہ کیا ہے جو یہاں تشکیل ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے بچھڑوں گا ترے دھیان میں رہ جاؤں گا

    تجھ سے بچھڑوں گا ترے دھیان میں رہ جاؤں گا میں رہا ہو کے بھی زندان میں رہ جاؤں گا وہ گزر جائے گا سو راستے کر کے لیکن میں کہیں وعدہ و پیمان میں رہ جاؤں گا بانجھ پیڑوں کو نہ کاٹے گا کوئی دست اجل میں کہ پھل دار ہوں نقصان میں رہ جاؤں گا ایک لمحہ وہ پذیرائی کرے گا اور میں عمر بھر سایۂ ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے ہر غم دل صد چاک سے باہر رکھا

    ہم نے ہر غم دل صد چاک سے باہر رکھا آگ کو پیرہن خاک سے باہر رکھا زیب تن ہم نے بھی کر رکھی یہ دنیا لیکن تیرے ہر رنگ کو پوشاک سے باہر رکھا خواب در خواب تجھے ڈھونڈنے والوں نے بھی اب نیند کو دیدۂ نمناک سے باہر رکھا اک طرح دھیان ہی ایسا کہ جسے ہم نے یہاں نفع نقصان کے پیچاک سے باہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4