Qadr Bilgrami

قدر بلگرامی

قدر بلگرامی کی غزل

    غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے

    غنچے چٹک گئے چمن روزگار کے پھوٹے حباب موج نسیم بہار کے رضواں جو ٹوکے گا در فردوس پر ہمیں کہہ دیں گے رہنے والے ہیں ہم کوئے یار کے آنکھیں ترس رہی ہیں مری تیری زلف کو تارے چمک رہے ہیں شب انتظار کے آغاز میں بھی ہم کو ہے انجام کا خیال دھڑکے شباب میں بھی ہیں روز شمار کے مضمون ہیں ہرن ...

    مزید پڑھیے

    پڑ گئی آپ پر نظر ہی تو ہے

    پڑ گئی آپ پر نظر ہی تو ہے اک خطا ہو گئی بشر ہی تو ہے اتنا بھاری نہ ڈالیے موباف بل نہ کھائے کہیں کمر ہی تو ہے میری آہوں سے ان کے دل میں اثر کبھی یوں بھی اڑے خبر ہی تو ہے پاؤں پھیلائے ہم نے مرقد میں چلتے چلتے تھکے سفر ہی تو ہے قدرؔ نے کیا زبان پائی ہے لوگ کہتے ہیں یہ سحر ہی تو ہے

    مزید پڑھیے

    ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے

    ہوئے کارواں سے جدا جو ہم رہ عاشقی میں فنا ہوئے جو گرے تو نقش قدم بنے جو اٹھے تو بانگ درا ہوئے جو ہوا سے زلف بکھر گئی نظر ان کی صاف بدل گئی جو اسیر حلقۂ ناز تھے وہ قتیل تیغ ادا ہوئے ہوا بعد وصل عجب مزا کہ خموش بیٹھے جدا جدا ہمہ تن میں صبر و سکوں ہوا ہمہ تن وہ شرم و حیا ہوئے اٹھے ہم ...

    مزید پڑھیے

    ہو گیا ابرو کی سفاکی سے شہرا یار کا

    ہو گیا ابرو کی سفاکی سے شہرا یار کا کام کر جائے سپاہی نام ہو سردار کا کوچۂ شہرگ سے کیا تیرا محل نزدیک ہے دم گلے میں آ کے اٹکا ہے ترے بیمار کا مثل عیسیٰ ان کی خدمت میں رسائی ہو گئی پڑھ گئے کوٹھے پہ ہم زینہ لگا کردار کا رات کو آنکھوں کے نیچے پھر گئی تصویر یار واہ کیا چمکا ستارہ ...

    مزید پڑھیے

    جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا

    جو داغ ہے عشق دل نشیں کا جو دل نشیں ہیں دل حزیں کا وہی ہے تمغہ مری جبیں کا وہی سلیماں مرے نگیں کا گئی نہ مر کر بھی کینہ خواہی ملا کے مٹی میں کی تباہی مری طرح سے کہیں الٰہی فلک بھی پیوند ہو زمیں کا تڑپ نہ پوچھو دل حزیں کی کہوں میں تم سے کہاں کہاں کی اسی سے ہے گردش آسماں کی اسی سے ہے ...

    مزید پڑھیے

    جب آنکھ بند ہوگی دیدار دیکھ لیں گے

    جب آنکھ بند ہوگی دیدار دیکھ لیں گے کب تک چھپوگے ہم سے اے یار دیکھ لیں گے کھڑکی قفس کی چاہے صیاد بند کر دے ہم روزن قفس سے گلزار دیکھ لیں گے واعظ نہ میکدے میں شیخی بگھار آ کر ساقی الگ رہے گا مے خوار دیکھ لیں گے کوچے میں ان بتوں کے اے قدرؔ پھر پھرا کر ہم قدرت خدا کے اسرار دیکھ لیں ...

    مزید پڑھیے

    گردن شیشہ جھکا دے مرے پیمانے پر

    گردن شیشہ جھکا دے مرے پیمانے پر سن برستا رہے ساقی ترے میخانے پر گرمیٔ حسن بڑھی سرد ہوا عاشق زار شمع کے پھول سے بجلی گری پروانے پر گرمیاں ہیں تو مرا دیدۂ تر حاضر ہے چھوٹے مژگاں کا ہزارا ترے خس خانے پر غش ہوا گردن ساقی پہ کبھی آنکھ پہ لوٹ کبھی شیشہ پہ گرا میں کبھی پیمانے پر وہ ...

    مزید پڑھیے

    شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی

    شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی جھکی ہے بلا پر بلا کالی کالی بہت ایسے کالے ہرن ہم نے دیکھے دکھاتے ہیں آنکھیں وہ کیا کالی کالی ڈٹے مل کے رند سیہ‌‌ مست جس دم جھکی میکدے پر گھٹا کالی کالی شب ماہ میں وہ پھرے بال کھولے ہوئی چاندنی جا بجا کالی کالی یہ سجدے کو خود جھک پڑے گی چمن پر کہ ...

    مزید پڑھیے

    منکر ہوتے ہیں ہنر والے

    منکر ہوتے ہیں ہنر والے نخل جھک جاتے ہیں ثمر والے ہم نے گھورا تو ہنس کے فرمایا اچھے آئے بری نظر والے منہدی مل کر وہ شوخ کہتا ہے سینک لیں آنکھیں چشم تر والے ہے سلامت جو سنگ در ان کا سیکڑوں مجھ سے درد سر والے قدرؔ کیا اپنے پاس دل کے سوا اڑیں پر والے پھولیں زر والے

    مزید پڑھیے

    آ گئی فصل نو بہار دشت میں وہ ہوا چلی

    آ گئی فصل نو بہار دشت میں وہ ہوا چلی سر پہ ہوا جنوں سوار عقل پیادہ پا چلی باغ سے جب ہوا چلی میکدے سے گھٹا چلی دل کی کلی کھلا چلی دل کی لگی بجھا چلی تو نے نہ آ کے دید کی بیٹھ کے گھر میں عید کی لاش ترے شہید کی جانب کربلا چلی واہ رے دورۂ شراب خانقہیں ہوئیں خراب جھوم رہے ہیں شیخ و شاب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2