صراحی کا بھرم کھلتا نہ میری تشنگی ہوتی
صراحی کا بھرم کھلتا نہ میری تشنگی ہوتی ذرا تم نے نگاہ ناز کو تکلیف دی ہوتی مقام عاشقی دنیا نے سمجھا ہی نہیں ورنہ جہاں تک تیرا غم ہوتا وہیں تک زندگی ہوتی تمہاری آرزو کیوں دل کے ویرانے میں آ پہنچی بہاروں میں پلی ہوتی ستاروں میں رہی ہوتی زمانے کی شکایت کیا زمانہ کس کی سنتا ہے مگر ...