Parvindar shokh

پروندر شوخ

  • 1964

پروندر شوخ کی غزل

    آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی

    آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی رو بہ رو ساری ہماری خامیاں آ جائیں گی شرط یے ہے آپ کے ہاتھوں سجائیں گلدان میں پھول کاغذ کے بھی ہوں تو تتلیاں آ جائیں گی بے زباں رہنے کا سارا لطف ہی کھو جائے گا زد میں آوازوں کے جب خاموشیاں آ جائیں گی سوکھ جائیں گے سمندر جب بھی باہر کے کبھی گھر ...

    مزید پڑھیے

    لبوں سے آنکھ سے رخسار سے کیا کیا نہیں کرتا

    لبوں سے آنکھ سے رخسار سے کیا کیا نہیں کرتا وہ جادو کون سا ہے جو کہ وہ چہرہ نہیں کرتا میں سارے کاغذوں پہ ایک مصرعہ لکھ کے رکھوں گا وہ جب تک آ کے میرے شعر کو پورا نہیں کرتا فسادوں میں جو شامل ہیں وہ مہرے ہیں سیاست کے خود اپنے آپ کوئی بھی یہاں دنگا نہیں کرتا ہواؤں میں نگر کی اس قدر ...

    مزید پڑھیے

    حسن کی چارہ گری نے ایک کرشمہ کر دیا

    حسن کی چارہ گری نے ایک کرشمہ کر دیا ہاتھ سے چھو کر فقط بیمار اچھا کر دیا دال روٹی کھا کے مفلس کاٹ لیتے تھے مگر اب سیاست نے اسے بھی خواب جیسا کر دیا ایک مصرعے پر رکا تھا سلسلہ جو دیر سے اس نے دیکھا مسکرا کر شعر پورا کر دیا شہر میں چہرے تھے یوں کہنے کو تو سب مختلف عشق نے ہر ایک چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے

    ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے لگا جب یوں کہ اکتانے لگا ہے دل ...

    مزید پڑھیے

    ہر سو اس کا چرچا ہونے والا ہے

    ہر سو اس کا چرچا ہونے والا ہے موسم پھر سے اجلا ہونے والا ہے بولے گا اوقات سے بڑھ کر وہ شاید قد سے سایہ اونچے ہونے والا ہے بات عموماً کرتا رہتا ہے سچ کی جلدی ہی وہ تنہا ہونے والا ہے نام پہ مذہب کے جمگھٹ ہے لوگوں کا شہر میں شاید دنگا ہونے والا ہے ہم بھی پہنچیں لے کر اپنی ...

    مزید پڑھیے

    گزر جائے جو آنکھوں سے وہ پھر منظر نہیں رہتا

    گزر جائے جو آنکھوں سے وہ پھر منظر نہیں رہتا جدا ہو کر جدا ہونے کا کوئی ڈر نہیں رہتا مٹیں بے چینیاں آخر در و دیوار کی کیسے گھروں میں لوگ رہتے ہیں دلوں میں گھر نہیں رہتا دکھائی کس طرح دے شہر میں کوئی مجھے آخر سوا اس کے نظر میں اب کوئی منظر نہیں رہتا یہ حیرت ہے کے مجھ کو غم نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    پیاسے کو ہر قطرہ ساگر لگتا ہے

    پیاسے کو ہر قطرہ ساگر لگتا ہے ہر منظر اب اس کا منظر لگتا ہے ہم نے اپنے قد کو اتنا کھینچ لیا جب بھی اٹھتے ہیں چھت میں سر لگتا ہے آیا ہے وہ جب تو کوئی بات کرے اوس کی اس خاموشی سے ڈر لگتا ہے ہوتی ہے تب اپنے کی پہچان ہمیں پیٹھ میں جب بھی کوئی خنجر لگتا ہے ملتا ہے وہ جب بھی آ کر خوابوں ...

    مزید پڑھیے