آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی

آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی
رو بہ رو ساری ہماری خامیاں آ جائیں گی


شرط یے ہے آپ کے ہاتھوں سجائیں گلدان میں
پھول کاغذ کے بھی ہوں تو تتلیاں آ جائیں گی


بے زباں رہنے کا سارا لطف ہی کھو جائے گا
زد میں آوازوں کے جب خاموشیاں آ جائیں گی


سوکھ جائیں گے سمندر جب بھی باہر کے کبھی
گھر میں میرے حسرتوں کی مچھلیاں آ جائیں گی


چلچلاتی دھوپ میں وہ جب بھی آئیں گے نظر
ایک پل میں شہر میں پھر سردیاں آ جائیں گی


آنکھ میں محبوب کی شدت سے دیکھو جھانک کر
شاعری کی سب تمہیں باریکیاں آ جائیں گی


یاد کر کے وصل کے پل کاٹ لیں گے زندگی
درمیاں جب بھی ہمارے دوریاں آ جائیں گی


اصل میں تو تب ہی ہوگا شوخؔ اس کا امتحاں
سامنے جب پیار کے مجبوریاں آ جائیں گی