آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی
آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی رو بہ رو ساری ہماری خامیاں آ جائیں گی شرط یے ہے آپ کے ہاتھوں سجائیں گلدان میں پھول کاغذ کے بھی ہوں تو تتلیاں آ جائیں گی بے زباں رہنے کا سارا لطف ہی کھو جائے گا زد میں آوازوں کے جب خاموشیاں آ جائیں گی سوکھ جائیں گے سمندر جب بھی باہر کے کبھی گھر ...