Parvin Sheer

پروین شیر

پروین شیر کی نظم

    شکستہ سپر

    مہرباں نازک رداؤں کی تہوں میں نرم باہوں کی پناہوں میں ہے رقصاں یہ زمیں وہ اک سپر بن کر جھلسنے سے بچا لیتی ہیں اس کو نغمہ گر صیقل فضائیں سبز ریشم کی قبا پہنے زمیں ہاتھوں میں تھامے نسترن نرگس سمن نازک تہوں میں زندگی ہے کس قدر محفوظ لیکن....... لحظہ لحظہ ہر پرت معدوم ہوتی جا رہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ کہاں؟

    جب بھی دل بھر آیا آنکھیں چھلکیں تنہائی کے اک گوشے میں اس کے کاندھے پہ سر رکھ کر اس سے دل کی باتیں کہہ کر جی کچھ تو ہلکا ہوتا تھا اس کی دل جوئی کی انگلی میری پلکوں سے رخشاں گوہر چن چن کر اپنی پلکوں کے دھاگے میں پرو کے رکھ لیتی تھی اک دن شام کے گہرے سائے شجر کے زردی مائل آنسو قطرہ قطرہ ...

    مزید پڑھیے

    سیڑھیاں

    دوریوں کی دھند میں گم ہو چکا ہے کارواں اب اٹھ رہا ہے دور تک کالا دھواں جو مڑ کے اس کو تک رہا ہے گھپ اندھیرے غار کی تہ میں اکیلی ناتواں اک زندگی پنجوں کے بل پتھر کی اونچی سیڑھیوں پر ہانپتی کوشش کی بیساکھی کو تھامے رینگتی ہے! پانیوں کی آگ میں جھلسی ہوئی نظریں ٹکی ہیں دور اونچائی پہ ...

    مزید پڑھیے

    ادھورا عنصر

    وہ سالمیت تھی ایک وحدت وہ کاملیت کسی طرح ایک غیر مضبوط ثانیے میں بکھر گئی تو الگ ہوا اس کا ایک حصہ! وہ ایک عنصر کا ایک حصہ جھٹک کے دامن خلا کے گہرے عمیق لا وقت فاصلوں کو عبور کرتا ہزاروں صدیوں کی دوریوں پر چلا گیا ہے....! کوئی نہیں جانتا کے کیسے وہ نامکمل شکستہ عنصر ادھورے پن کی ...

    مزید پڑھیے

    برف کی مورتی

    برف کی آندھیاں چیختی دہاڑتی ایک ہیجان میں شہر جاں کی فصیلوں پہ یوں حملہ آور ہوئیں اک دھماکہ ہوا سب شجر گر گئے ہر مکاں ڈھے گیا در دریچوں کے ٹکڑے ہوئے جا بجا آب جو منجمد ہو گئی ہر گلی یخ سفیدی میں یوں چھپ گئی برف کی ریت کا ڈھیر سارا نگر ہو گیا اور اس سے تراشی گئی اک چمکتی ہوئی برف کی ...

    مزید پڑھیے

    شناخت

    ہر ایک قطرہ سمندروں میں سما گیا ہے وجود اپنا گنوا چکا ہے اسی یقیں پر کہ اب وہ قطرے سے اک سمندر کی بے کرانی میں ڈھل گیا ہے مگر یہاں ہے بہت اکیلا جو ایک قطرہ وجود اپنا سنبھال کر مسکرا رہا ہے کہ اس کے اندر کئی سمندر سما گئے ہیں

    مزید پڑھیے