Parvin Sheer

پروین شیر

پروین شیر کی غزل

    تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے

    تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے پتا وہ اپنا کبھی ڈھونڈنے نہ پائے تھے کسے خبر تھی کہ پھولوں میں بھی ہنر ہے وہی کس احتیاط سے کانٹوں سے بچ کے آئے تھے وہ بے حسی کا تھا عالم ذرا خبر نہ ہوئی کہ روشنی تھی سر رہ گزر کہ سائے تھے کنارے دور بہت دور تھے تو مجبوراً سمندروں میں ہی لوگوں نے ...

    مزید پڑھیے

    ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں

    ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں شب دشت بلا میں بے اماں ہوں ہوا کی زد پہ جیسے شمع کی لو میں اپنے حوصلوں کا امتحاں ہوں چراغاں سا ہے دروازے پہ لیکن میں اندر سے کوئی تیرہ مکاں ہوں وہ بادل تھا ہوا کا ہم سفر تھا میں تشنہ کام فصل رائگاں ہوں ستوں کچے تھے بارش سہہ نہ پائے سلگتی دھوپ میں ...

    مزید پڑھیے

    مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے

    مقتل سے جب گزر کے حریفانہ آئیے اک دشت بے کنار میں پھر گھر بنائیے تاریک ہو نہ پائے کبھی دامن‌ فلک پلکوں سے تا بہ صبح ستارے جلائیے ہونے نہ پائے پھولوں کا محتاج گلستاں دل کے ہزار زخم ہمیشہ کھلائیے چہروں کو قید سے ہوئے آزاد گر کبھی بکھرے ہوئے وجود کو کیسے بچایئے ساحل نہ دے سکا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ساتھ دیا میرا دوا نے نہ دعا نے

    کچھ ساتھ دیا میرا دوا نے نہ دعا نے اب جائیں کہاں ڈھونڈنے جینے کے بہانے فرہاد بھی واقف نہیں اب کوہ کنی سے بے کار ہیں فرسودہ محبت کے فسانے اس دیدۂ پر نم میں ہے رقصاں ترا پرتو مہتاب لٹاتا ہے سمندر پہ خزانے

    مزید پڑھیے

    تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی

    تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی کنارے دور ہیں ٹوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی تھکن سے چور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی متاع رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی خریداروں کے حلقے میں سر بازار ہے پھر بھی مری مٹھی میں نازک پنکھڑی محفوظ رہتی ...

    مزید پڑھیے