Parveen Umm-e-Mushtaq

پروین ام مشتاق

پروین ام مشتاق کی غزل

    بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں

    بہت سے زمیں میں دبائے گئے ہیں بہت ان کے عاشق جلائے گئے ہیں ہمیشہ سے عاشق ستائے گئے ہیں ہمیں کیا نئے یاں جلائے گئے ہیں اندھیرا نہ ہونے دیا وصل کی شب وہ شمعوں پہ شمعیں جلائے گئے ہیں نہیں بے سبب ان کو مجھ سے رکاوٹ بہت ہی سکھائے پڑھائے گئے ہیں نہیں وصل کی ان سے فرمائش آساں بہت منہ ...

    مزید پڑھیے

    زباں ہے بے خبر اور بے زباں دل

    زباں ہے بے خبر اور بے زباں دل کہے کس طرح سے راز نہاں دل نہیں دنیا کو دل داری کی عادت سنائے کس کو اپنی داستاں دل نہ پوچھو بے ٹھکانوں کا ٹھکانا وہیں ہم بھی تھے سرگرداں جہاں دل کٹی ہے زندگی سب رنج کھاتے کہے کیا عمر بھر کی داستاں دل ہمیں بھی تھی کبھی ملنے کی لذت ہمارا بھی کبھی تھا ...

    مزید پڑھیے

    جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق

    جاتا رہا قلب سے ساری خدائی کا عشق قابل تعریف ہے تیرے فدائی کا عشق کیسی مصیبت ہے یہ گل کو خموشی کا شوق بلبل بیتاب کو ہرزہ سرائی کا عشق پڑ گئی بکنے کی لت ورنہ یہاں تک نہ تھا واعظ نافہم کو ہرزہ سرائی کا عشق کرتا ہوں جو بار بار بوسۂ رخ کا سوال حسن کے صدقے سے ہے مجھ کو گدائی کا ...

    مزید پڑھیے

    بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں

    بازی پہ دل لگا ہے کوئی دل لگی نہیں یہ بھی ہے کوئی بات کبھی ہاں کبھی نہیں جس نے کچھ احتیاط جوانی میں کی نہیں عقل سلیم کہتی ہے وہ آدمی نہیں دل مانگو تو جواب ہے ان کا ابھی نہیں گویا ابھی نہیں کا ہے مطلب کبھی نہیں واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی ...

    مزید پڑھیے

    کریں گے ظلم دنیا پر یہ بت اور آسماں کب تک

    کریں گے ظلم دنیا پر یہ بت اور آسماں کب تک رہے گا پیر یہ کب تک رہوگے تم جواں کب تک خداوندا انہیں کس دن شعور آئے گا دنیا کا رہیں گی بے پڑھی لکھی ہماری لڑکیاں کب تک پھرے گا اور کتنے دن خیالی پار گھوڑے پر اڑے گا شعر گوئی میں نہ انجن کا دھواں کب تک عنان حکمرانی دیکھیے کس دن خدا لے ...

    مزید پڑھیے

    نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

    نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا برا ہو بد گمانی کا وہ نامہ غیر کا سمجھا ہمارے ہاتھ میں تو پرچۂ اخبار تھا کیا تھا صدا سنتے ہی گویا مردنی سی چھا گئی مجھ پر یہ شور صور تھا یا وصل کا انکار تھا کیا تھا خدا کا دوست ہے تعمیر دل جو ...

    مزید پڑھیے

    دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں

    دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں روک رکھا ہے مجھے گل زار میں فرق کیا مقتل میں اور گل زار میں ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں لطف دنیا میں نہیں تکرار میں لیکن ان کے بوسۂ رخسار میں تھا جو شب کو سایۂ رخسار میں تازگی کتنی ہے باسی ہار میں فرط مایوسی نے مردہ حسرتیں دفن کر دی ہیں دل ...

    مزید پڑھیے

    ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع

    ہے اپنے قتل کی دل مضطر کو اطلاع گردن کو اطلاع نہ خنجر کو اطلاع بے پردہ آج نکلے گا پردہ نشیں مرا کر دے یہ کوئی مہر منور کو اطلاع چھپ چھپ کے اب جو نکلو تو معلوم ہو مزہ کر دی ہے میں نے آپ کے گھر بھر کو اطلاع بلبل نہ باز آئیو فریاد و آہ سے کب تک نہ ہوگی قلب گل تر کو اطلاع کس طرح کر دیا ...

    مزید پڑھیے

    بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کل

    بدلی ہوئی ہے چرخ کی رفتار آج کل ہو بند راست گوئی کا بازار آج کل علم و ہنر ہے ملک کو درکار آج کل ہم خود بھلے برے کے ہیں مختار آج کل ہے اور ہی طریقۂ بازار آج کل جنس نفیس کے ہیں خریدار آج کل غفلت کا دور ملک سے شاید گزر گیا مخلوق ہوتی جاتی ہے بیدار آج کل گل گونۂ ترقیٔ تہذیب و علم ...

    مزید پڑھیے

    جو چار آدمیوں میں گناہ کرتے ہیں

    جو چار آدمیوں میں گناہ کرتے ہیں خدا کی دی ہوئی عزت تباہ کرتے ہیں بتوں کے ہوتے جو مہ پر نگاہ کرتے ہیں قسم خدا کی بڑا ہی گناہ کرتے ہیں بڑا ہی ظلم خدا کی پناہ کرتے ہیں ہم آہ آہ تو وہ واہ واہ کرتے ہیں وہ بوسہ دیتے نہیں گورے گورے گالوں کا تمہیں گواہ ہم اے مہر و ماہ کرتے ہیں بتو تمہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4