Parveen Kumar Ashk

پروین کمار اشک

پروین کمار اشک کی غزل

    سفر میں دھوپ ہے تو سائبان بھی ہوگا

    سفر میں دھوپ ہے تو سائبان بھی ہوگا زمین ہوگی جہاں آسمان بھی ہوگا خبر کہاں تھی کہ یہ روح ایک مسجد ہے سیہ وجود میں نور اذان بھی ہوگا ترے بدن پہ یہ بوڑھا سفید سر کیسا جدید بچے بتا کیا جوان بھی ہوگا مری پسند کے افراد جس میں رہتے ہیں زمیں پہ ایسا کوئی خاندان بھی ہوگا سنا ہے شہر ...

    مزید پڑھیے

    سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا

    سمندر آنکھ سے اوجھل ذرا نہیں ہوتا ندی کو ڈر کسی چٹان کا نہیں ہوتا وہ جب بھی روتا ہے میں ساتھ ساتھ روتا ہوں مزے کی بات ہے اس کو پتا نہیں ہوتا مسافروں کے لیے منزلیں ہی ہوتی ہیں مسافروں کے لیے راستہ نہیں ہوتا تماشا گاہ میں کس کا تماشا ہوتا ہے تماش بینوں کو اس کا پتا نہیں ہوتا میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2