جس کا بدن گلاب تھا وہ یار بھی نہیں
جس کا بدن گلاب تھا وہ یار بھی نہیں اب کے برس بہار کے آثار بھی نہیں پیڑوں پہ اب بھی چھائی ہیں ٹھنڈی اداسیاں امکان جشن رنگ کا اس بار بھی نہیں دریا کے التفات سے اتنا ہی بس ہوا تشنہ نہیں ہیں ہونٹ تو سرشار بھی نہیں راہوں کے پیچ و خم بھی اسے دیکھنے کا شوق چلنے کو تیز دھوپ میں تیار بھی ...