شبنم بھیگی گھاس پہ چلنا کتنا اچھا لگتا ہے
شبنم بھیگی گھاس پہ چلنا کتنا اچھا لگتا ہے
پاؤں تلے جو موتی بکھریں جھلمل رستہ لگتا ہے
جاڑے کی اس دھوپ نے دیکھو کیسا جادو پھیر دیا
بے حد سبز درختوں کا بھی رنگ سنہرا لگتا ہے
بھیڑیں اجلی جھاگ کے جیسی سبزہ ایک سمندر سا
دور کھڑا وہ پربت نیلا خواب میں کھویا لگتا ہے
جس نے سب کی میل کثافت دھوئی اپنے ہاتھوں سے
دریا کتنا اجلا ہے وہ شیشے جیسا لگتا ہے
اندر باہر ایک خموشی ایک جلن بے چینی سے
کس کو ہم بتلائیں آخر یہ سب کیسا لگتا ہے
شام لہکتے جذبوں والی فکریؔ کب کی راکھ ہوئی
چاند رو پہلی کرنوں والا درد کا مارا لگتا ہے