Paigham Aafaqi

پیغام آفاقی

  • 1956 - 2016

معروف مابعد جدید فکشن نویس اور شاعر۔ اپنے ناول ’پلیتا‘ کے لیے جانے جاتے ہیں۔

Prominent post-modernist fiction writer and poet; known well for his novel Paleeta.

پیغام آفاقی کی نظم

    بھوت

    ہم وہاں پہ بیٹھے تھے بعد میں ہوا معلوم میں وہاں اکیلا تھا بھوت میں نے دیکھے تھے خوف سے میں لرزا تھا اور آج تک تب سے دل مرا دھڑکتا ہے جب بھی کوئی دیتا ہے دل کے پردے پر دستک مجھ کو ایسا لگتا ہے یہ ہوا کا جھونکا تھا ہم تو جانے والے تھے ایک ساتھ ہی لیکن جب وہاں پہ پہنچے ہم میں وہاں اکیلا ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ روایتیں

    صاف و شفاف جھیلوں کی وہ مچھلیاں وہ تڑپتی ہوئی مچھلیاں خوبصورت تھیں اور ایک دن وہ انہیں مار کر کھا گئے صاف و شفاف جھیلوں میں اب خون کی دھار ہے

    مزید پڑھیے

    ریت کا صحرا

    جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی وہ لمحے اکثر آتے ہیں جب ذہن کے سارے پردے اٹکے اٹکے سے رہ جاتے ہیں جب شور مچاتی شاخ زباں سے سارے پرندے مر مر کے گر جاتے ہیں وہ لمحے اکثر آتے ہیں جب آوازوں کے پنجر اپنے سوکھے سوکھے ہاتھ لیے میرے سر پر چھا جاتے ہیں اور میں گھبرا سا ...

    مزید پڑھیے

    کرائی سس

    ندیاں میرے قدموں کے نیچے سے بہتی چلی جا رہی ہیں پہاڑ میرے گھٹنوں اور درخت میرے رونگٹوں پر رشک کر رہے ہیں پھیلی ہوئی زمین پر میں کتنا اونچا ہو گیا ہوں چاند میرے ماتھے پر ہے اور سورج ہاتھوں کا کھلونا ہے خدا میری کھوپڑی کے اندر چمگادڑ کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے سمندر میرا پاؤں چوم رہے ...

    مزید پڑھیے

    منزل کے نام

    کیسے کھینچوں تری تصویر تو گم ہے اب تک تجھ کو اے جان جہاں میں نے تو دیکھا بھی نہیں جب کبھی ابر شب مہ میں اڑا جاتا ہے آبشاروں سے صدا آتی ہے چھن چھن کے کہیں یا کبھی شام کی تاریکی میں تنہائی میں جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے تری یادوں کا میں سجاتا ہوں خیالوں میں حسیں خواب کوئی سامنے آتی ہے دو ...

    مزید پڑھیے

    الفاظ کے تاریک بادل

    الفاظ کے جادو سے سحر کاروں نے ہر وقت پتھر کو کبھی شیشہ کبھی آگ کو شبنم نفرت کو محبت کبھی انسان کو حیوان۔۔۔۔۔ حیوان بنایا جس راہ پہ چلتے رہے گمراہ مسافر ان راہوں کو ہر موڑ پہ، بے موڑ پہ اس طرح گھمایا کہ جیسے خلاؤں میں سبھی گھوم رہے ہوں دیوانوں کی مانند گردش نے انہیں اور بھی دیوانہ ...

    مزید پڑھیے

    کہاں جا رہا ہوں

    زمیں پہلے ایسی کبھی بھی نہ تھی پاؤں مٹی پہ ہوتے تھے نظریں افق پر ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہوتا تھا ہم کون ہیں اور کیا کر رہے ہیں کہاں جا رہے ہیں مگر آج عالم یہ ہے پاؤں رکتے نہیں آنکھ کھلتی نہیں اجنبی راستوں پر میں بڑھتا چلا جا رہا ہوں

    مزید پڑھیے

    روح اذیت خوردہ

    زخموں کے انبار، در و دیوار بھی سونے لگتے ہیں خوشیوں کے دریا میں اتنی چوٹ لگی کہ اب اس میں چلتے رہنا دشوار ہوا سڑکوں پر چلتے پھرتے شاداب سے چہرے سوکھ گئے وہ موسم جس کو آنا تھا، وہ آ بھی گیا اور چھا بھی گیا اشجار کے نیلے گوشوں سے اب زہر سا رستا رہتا ہے گل زار خزاں کے شعلوں میں ہر ...

    مزید پڑھیے

    چمگادڑ

    میں نے آج رات کے آخری پہر خواب دیکھا ہے کہ میری کھوپڑی کے اندر بہت سارے چمگادڑ پھڑپھڑا رہے ہیں

    مزید پڑھیے