Paigham Aafaqi

پیغام آفاقی

  • 1956 - 2016

معروف مابعد جدید فکشن نویس اور شاعر۔ اپنے ناول ’پلیتا‘ کے لیے جانے جاتے ہیں۔

Prominent post-modernist fiction writer and poet; known well for his novel Paleeta.

پیغام آفاقی کے تمام مواد

2 غزل (Ghazal)

    اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات

    اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات پہلے لہو میں پھر آنسو میں پھر کرنوں میں نہائی رات اک پردے کو اٹھ جانا تھا اک چہرے کو آنا تھا کتنی حسیں تھی کتنی دل کش شرمائی شرمائی رات ہر شاخ گل میں تھی یہ نرمی غنچے تک گر جاتے تھے آج ہر اک ٹہنی پتھر ہے کیسی آندھی لائی رات ایک کرشمہ ...

    مزید پڑھیے

    خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے

    خواب تعبیر کے اسیر نہ تھے رہ گزر تھے یہ راہگیر نہ تھے رہنما تھے کبھی وہ سچ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ میرے پیر نہ تھے ہم نے زنداں کی باغبانی کی موسم گل کے ہم اسیر نہ تھے پتھر آئے تھے آئینے بن کے ورنہ ہم اتنے بے ضمیر نہ تھے اپنا انداز زیست ہے پیغامؔ یہ تماشے تھے ناگزیر نہ تھے

    مزید پڑھیے

9 نظم (Nazm)

    بھوت

    ہم وہاں پہ بیٹھے تھے بعد میں ہوا معلوم میں وہاں اکیلا تھا بھوت میں نے دیکھے تھے خوف سے میں لرزا تھا اور آج تک تب سے دل مرا دھڑکتا ہے جب بھی کوئی دیتا ہے دل کے پردے پر دستک مجھ کو ایسا لگتا ہے یہ ہوا کا جھونکا تھا ہم تو جانے والے تھے ایک ساتھ ہی لیکن جب وہاں پہ پہنچے ہم میں وہاں اکیلا ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ روایتیں

    صاف و شفاف جھیلوں کی وہ مچھلیاں وہ تڑپتی ہوئی مچھلیاں خوبصورت تھیں اور ایک دن وہ انہیں مار کر کھا گئے صاف و شفاف جھیلوں میں اب خون کی دھار ہے

    مزید پڑھیے

    ریت کا صحرا

    جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی وہ لمحے اکثر آتے ہیں جب ذہن کے سارے پردے اٹکے اٹکے سے رہ جاتے ہیں جب شور مچاتی شاخ زباں سے سارے پرندے مر مر کے گر جاتے ہیں وہ لمحے اکثر آتے ہیں جب آوازوں کے پنجر اپنے سوکھے سوکھے ہاتھ لیے میرے سر پر چھا جاتے ہیں اور میں گھبرا سا ...

    مزید پڑھیے

    کرائی سس

    ندیاں میرے قدموں کے نیچے سے بہتی چلی جا رہی ہیں پہاڑ میرے گھٹنوں اور درخت میرے رونگٹوں پر رشک کر رہے ہیں پھیلی ہوئی زمین پر میں کتنا اونچا ہو گیا ہوں چاند میرے ماتھے پر ہے اور سورج ہاتھوں کا کھلونا ہے خدا میری کھوپڑی کے اندر چمگادڑ کی طرح پھڑپھڑا رہا ہے سمندر میرا پاؤں چوم رہے ...

    مزید پڑھیے

    منزل کے نام

    کیسے کھینچوں تری تصویر تو گم ہے اب تک تجھ کو اے جان جہاں میں نے تو دیکھا بھی نہیں جب کبھی ابر شب مہ میں اڑا جاتا ہے آبشاروں سے صدا آتی ہے چھن چھن کے کہیں یا کبھی شام کی تاریکی میں تنہائی میں جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے تری یادوں کا میں سجاتا ہوں خیالوں میں حسیں خواب کوئی سامنے آتی ہے دو ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 افسانہ (Story)

    ڈائن

    جی، میں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشے میں بہت سے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہے۔ جی۔ ان میں چند اموات سے میں کافی متاثر بھی ہوا ہوں۔ جی۔ ان میں سب سے زیادہ ایک ایسی موت سے ہوا کہ وہ شخص تب تک نہیں مرا جب تک بیمار تھا لیکن جیسے ہی میں اس کے اندر کے زہر کو نکال لینے میں کامیاب ...

    مزید پڑھیے

    گلاس

    ایک دن وہ آفس میں آ کر اطمینان سے بیٹھا تو اسے پیاس کا احساس ہوا – اس نے سامنے رکھے گلاس کا پانی پی لیا اور پھر چپراسی سے ایک گلاس پانی لانے کے لئے کہا – اس کے ساتھ ہی اس کی سکریٹری مانسی بھی آئی تھی جو میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی – مانسی کی نظر قلمدان پر لگے ایک قلم پر بیٹھے ایک ...

    مزید پڑھیے

    نیم لاش

    شہر اس کی نگاہوں کے کینوس پر شہر کی اونچی عمارتیں ابھرنے لگی تھیں – وہ درخت کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ گیا- گاڑیوں میں خون سے لت پت اور نیم زندہ لوگوں کو لے جایا جا رہا تھا-اور ان پر نصب بندوقیں چاروں طرف جھانک رہی تھیں – تیز دھوپ سے پوری فضا گرم ہو گئی تھی- اسے پیاس لگ گئی لیکن ...

    مزید پڑھیے