اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات
اندھی راہوں کی الجھن میں بیچاری گھبرائی رات پہلے لہو میں پھر آنسو میں پھر کرنوں میں نہائی رات اک پردے کو اٹھ جانا تھا اک چہرے کو آنا تھا کتنی حسیں تھی کتنی دل کش شرمائی شرمائی رات ہر شاخ گل میں تھی یہ نرمی غنچے تک گر جاتے تھے آج ہر اک ٹہنی پتھر ہے کیسی آندھی لائی رات ایک کرشمہ ...