P P Srivastava Rind

پی.پی سری واستو رند

پی.پی سری واستو رند کے تمام مواد

20 غزل (Ghazal)

    سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے

    سازشوں کی بھیڑ میں تاریکیاں سر پر اٹھائے بڑھ رہے ہیں شام کے سائے دھواں سر پر اٹھائے ریگ زاروں میں بھٹکتی سوچ کے کچھ خشک لمحے تلخئ حالات کی ہیں داستاں سر پر اٹھائے خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے چند گونگی دستکیں ہیں گھر کے دروازے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں

    ہجر موسم تھا ستاتی رہی تنہائی ہمیں چھت پہ تارا بھی جو ٹوٹا تو صدا آئی ہمیں قہقہہ زار فضاؤں میں عجب بھیڑ سی تھی گھر کا ماحول جو دیکھا تو ہنسی آئی ہمیں ہم سرابوں کے مسافر تھے مگر جانتے تھے کس کے دم پر نہ ڈراتی رہی پروائی ہمیں چھاؤں نے آبلہ پائی کے سوا کچھ نہ دیا دھوپ دیتی رہی ...

    مزید پڑھیے

    روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم

    روشنی بھر خلا پہ بار تھے ہم دھند منظر پس غبار تھے ہم دھوپ میں آئے تو سکون ملا چھاؤں میں تھے تو داغ دار تھے ہم کوئی دستک نہ کوئی آہٹ تھی مدتوں وہم کے شکار تھے ہم بت گری میں ہنر بھی شامل تھا سنگ سازی سے ہوشیار تھے ہم قرض کوئی بھی جسم و جاں پہ نہ تھا زندگی پر مگر ادھار تھے ...

    مزید پڑھیے

    احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں

    احساس بے طلب کا ہی الزام دو ہمیں رسوائیوں کی بھیڑ میں انعام دو ہمیں خودداریوں کی دھوپ میں آرام دو ہمیں سوغات میں ہی گردش ایام دو ہمیں احساس لمس جسم کی اس بھیڑ میں کہاں کالی رتیں گناہ کا پیغام دو ہمیں گم صم حصار ربط میں ہے لمحۂ عذاب خواہش کا کرب فطرت بد نام دو ہمیں بے زاریوں کو ...

    مزید پڑھیے

    ممتا بھری نگاہ نے روکا تو ڈر لگا

    ممتا بھری نگاہ نے روکا تو ڈر لگا جب بھی شکار زین سے باندھا تو ڈر لگا تنہا فصیل شہر پہ بیٹھی ہوئی تھی شام جب دھندلکوں نے شور مچایا تو ڈر لگا اپنے سروں پہ پگڑیاں باندھے ہوئے تھے لفظ مضمون جب نیا کوئی باندھا تو ڈر لگا بجھتے ہوئے الاؤ میں آتش فشاں بھی تھے کہرام رتجگوں نے مچایا تو ...

    مزید پڑھیے

تمام