ن م دانش کی نظم

    کورا برتن

    وہ راہ چلتے ہوئے ملی تھی وہ جس کے چشمے کے موٹے شیشوں پہ ذات کے دکھ کی گرد کی تہ جمی ہوئی تھی وہ جس کے چہرے وہ جس کے ماتھے پر اک مسلسل سفر کا نوحہ لکھا ہوا تھا وہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کی عذاب دیدہ زہر کی خوشبو رچی ہوئی تھی وہ جس کی باتوں میں اس کے اندر کا زرد سناٹا بولتا تھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    دروازے کے باہر

    وقت ہے باہر کھڑا یہ کسے معلوم ہے دروازہ کھولیں کیا ہمارا منتظر ہو کون سا دکھ کونسی راحت نصابوں میں لکھی سچائی یا آنکھوں سے گرتا اشک تاریکی کھڑی ہو یا کسی ٹہنی کا تنہا پھول آنکھیں سرد گہری جن میں کچھ کھلتا نہ ہو کہ کیا ہے پوشیدہ نمایاں کیا ہے کس کا عکس ہے کیسی شبیہ ہے یہ سمندر ہے ...

    مزید پڑھیے

    کتا بھونکتا ہے

    پرانے شہر کی ویراں گلی میں جب بھی آدھی رات ہوتی ہے تو کتا بھونکتا ہے کتا بھونکتا ہے ایک سایا سا ابھرتا ہے مرے کمرے کے ویراں طاق پر رکھے دئے کی لو لرزتی ہے سڑک کے اک سرے سے اجنبی سی چاپ ابھرتی ہے اداسی گھر کے دروازے پر آ کر بین کرتی ہے اور کتا بھونکتا ہے کتا بھونکتا ہے نیم شب کو ...

    مزید پڑھیے