کورا برتن
وہ راہ چلتے ہوئے ملی تھی وہ جس کے چشمے کے موٹے شیشوں پہ ذات کے دکھ کی گرد کی تہ جمی ہوئی تھی وہ جس کے چہرے وہ جس کے ماتھے پر اک مسلسل سفر کا نوحہ لکھا ہوا تھا وہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کی عذاب دیدہ زہر کی خوشبو رچی ہوئی تھی وہ جس کی باتوں میں اس کے اندر کا زرد سناٹا بولتا تھا وہ ...