Noman Farooq

نعمان فاروق

نعمان فاروق کی غزل

    تری قربت میں جو رہی ہوگی

    تری قربت میں جو رہی ہوگی رات مغرور ہو رہی ہوگی کب سے خوشبو نظر نہیں آئی اس کے پہلو میں سو رہی ہوگی یاد کر کے ہماری فرقت کو اپنا آنچل بھگو رہی ہوگی ہم نے صحرا کو چھان مارا ہے پیاس پانی میں سو رہی ہوگی جا کے شب کو ذرا جگا لاؤ اس کی زلفوں میں سو رہی ہوگی

    مزید پڑھیے

    ہجر کا موسم جھیلی ہو

    ہجر کا موسم جھیلی ہو ایسی ایک سہیلی ہو تیرے قرب کی خوشبو ہو چمپا ہو نہ چنبیلی ہو ایسا کون سا دریا ہے جس نے پیاس نہ جھیلی ہو ہر اک راہ پہ ساتھ چلے ایسا الھڑ بیلی ہو اس کی ہر اک بات ہے یوں جیسے کوئی پہیلی ہو

    مزید پڑھیے

    خمار تشنہ لبی میں یہ کام کر آئے

    خمار تشنہ لبی میں یہ کام کر آئے ہم اپنی پیاس کو دریا کے نام کر آئے تمہارے لمس کا صندل مہکنے والا ہے خبر یہ ہم بھی درختوں میں عام کر آئے اسے گلے سے لگانا تو خواب ٹھہرا ہے یہی بہت ہے جو اس سے کلام کر آئے تمہاری یاد کی چھاؤں میں دن گزارا ہے تمہارے ذکر کے سائے میں شام کر آئے کچھ اور ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو دیکھی ہیں مرے یار سبھی کی آنکھیں

    یوں تو دیکھی ہیں مرے یار سبھی کی آنکھیں اس کی آنکھوں سی کہاں اور کسی کی آنکھیں وہ تو پربت کی بلندی کو بھلا بیٹھی ہے گم ہیں یوں تیرے ابھاروں میں ندی کی آنکھیں اس کی گردن کے سبھی طوق اتر جاتے ہیں جس پہ اٹھ جاتی ہیں اک بار ولی کی آنکھیں بس تری راہ میں لٹنے کو تلے بیٹھے ہیں کسی لمحے ...

    مزید پڑھیے

    سنو دریا کی دہائی صاحب

    سنو دریا کی دہائی صاحب پیاس ملنے نہیں آئی صاحب یاد کرتی ہے مہکتی سرسوں راہ تکتی ہے پھلائی صاحب میرے ہاتھوں میں قلم تھا لیکن میں نے تلوار اٹھائی صاحب مجھ پہ پتھراؤ کیا پھولوں نے چوٹ خوشبو نے لگائی صاحب میرے ہونٹوں سے چھڑا کر دامن پیاس دریا میں نہائی صاحب

    مزید پڑھیے

    ہر کٹھن موڑ پہ بنتے ہیں سہارے میرے

    ہر کٹھن موڑ پہ بنتے ہیں سہارے میرے دوست اچھے ہیں سنو سارے کے سارے میرے یہ الگ بات کہ کچھ کر نہیں پائیں گے مگر رات کی راہ تو روکیں گے ستارے میرے کہیں سرسوں کا تلاطم کہیں کاہو کا سکوت ایک سے ایک ہیں گاؤں کے نظارے میرے شب سمجھتی ہے مری بات کی ساری پرتیں دن پہ کھل ہی نہیں پاتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی

    یہ الگ بات کہ ہم سا نہیں پیاسا کوئی پھر بھی دریا سے تعلق نہیں رکھا کوئی میرے مکتب کو دھماکے سے اڑایا گیا ہے اب کہ ہاتھوں میں کتابیں ہیں نہ بستہ کوئی جانے کس اور گیا قافلہ امیدوں کا دل کے صحرا میں نہیں آس کا خیمہ کوئی کس عجب دھن میں یہاں عمر گنوائی ہم نے قرض مٹی کا اتارا نہ ہی ...

    مزید پڑھیے

    اس کی خوشبو کی چاپ سنتے ہی (ردیف .. ن)

    اس کی خوشبو کی چاپ سنتے ہی پھول کھلنے لگے تھے بیلے میں اس نے وعدہ کیا ہے ملنے کا مجھ سے آئندگاں کے میلے میں آؤ ڈھونڈیں کہاں گیا سورج شام کے سرمئی جھمیلے میں اس سے کہنا کہ لوٹ آئے وہ بات کرنا مگر اکیلے میں اس کے چھوتے ہی ہوش کی ناؤ بہہ گئی خوشبوؤں کے ریلے میں

    مزید پڑھیے

    جب رکھے پاؤں اس نے پانی میں

    جب رکھے پاؤں اس نے پانی میں آ گئی موج بھی روانی میں سارے مضمون تھے بلاغت کے ایک کمسن کی بے زبانی میں اک نیا ذائقہ جنم لے گا پیاس دیکھو ملا کے پانی میں غم نہ دیکھا کوئی بڑھاپے کا مر گئے شکر ہے جوانی میں آج روٹھی ہے سانولی مجھ سے کہہ دیا جانے کیا روانی میں

    مزید پڑھیے

    جب جب اس کو سوچا ہے

    جب جب اس کو سوچا ہے دل اندر سے مہکا ہے صحرا پر موقوف نہیں دریا بھی تو پیاسا ہے تیرے روپ کا سایہ تو سیدھا دل پر پڑتا ہے سب سے اس کی باتیں کرنا کتنا اچھا لگتا ہے چوٹ لگے اک عمر ہوئی زخم ابھی تک رستا ہے شام کی بانہوں میں نعمانؔ کس کو سوچتا رہتا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2