نثار ناسک کی غزل

    بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر

    بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب تو بکھرنا چاہتا ہے تو مرے اندر بکھر تو کنول کی شکل میں پھوٹے گا اپنی ذات سے جسم کی ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے

    اس سے پہلے کہ مجھے وقت علیحدہ رکھ دے میرے ہونٹوں پہ مرے نام کا بوسہ رکھ دے حلق سے اب تو اترتا نہیں اشکوں کا نمک اب کسی اور کی گردن پہ یہ دنیا رکھ دے روشنی اپنی شباہت ہی بھلا دے نہ کہیں اپنے سورج کے سرہانے مرا سایہ رکھ دے تو کہاں لے کے پھرے گی مری تقدیر کا بوجھ میری پلکوں پہ شب ...

    مزید پڑھیے

    میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا

    میں کس کی کھوج میں اس کرب سے گزرتا رہا کہ شاخ شاخ پہ کھلتا رہا بکھرتا رہا مجھے تو اتنی خبر ہے کہ مشت خاک تھا میں جو چاک مہلت گریہ پہ رقص کرتا رہا یہ سانس بھر مرے حصے کا خواب کیسا تھا کہ جس میں اپنے لہو سے میں رنگ بھرتا رہا عجیب جنگ رہی میری میرے عہد کے ساتھ میں اس کے جال کو وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2