بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر
بجھ گئیں عقلوں کی آنکھیں گل گئے جذبوں کے پر کہر کے کیچڑ میں تڑپے ہیں پرندے رات بھر جانے پھر کن دلدلوں سے آخری آواز دیں اپنی بے منشور عمریں اپنے بے منزل سفر میرے باہر چار سو مرتی صداؤں کا سراب تو بکھرنا چاہتا ہے تو مرے اندر بکھر تو کنول کی شکل میں پھوٹے گا اپنی ذات سے جسم کی ...