نثار ناسک کی غزل

    جو میرے دل میں فروزاں ہے شاعری کی طرح

    جو میرے دل میں فروزاں ہے شاعری کی طرح میں اس کو ڈھونڈھتا پھرتا ہوں نوکری کی طرح جو میری ذات کا اظہار ہے وہ لفظ ابھی مرے لبوں پہ سسکتا ہے خامشی کی طرح ہوا کا ساتھ نہ دے اس نگر برس کے گزر میں بے حیات ہوں سوکھی ہوئی ندی کی طرح تو لا زوال ہے بے معنویتوں کی مثال میں بے ثبات ہوں مانگی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے سنبھال مرا ہاتھ تھام کر لے جا

    مجھے سنبھال مرا ہاتھ تھام کر لے جا تھکا ہوا ہوں کئی دن کا مجھ کو گھر لے جا گرفت گل سے نکل کر بکھرتا جاتا ہوں مجھے ہوا کے پروں میں سمیٹ کر لے جا جہاں سے مانگ مرے نام پر حیات کی بھیک تو میرا کاسۂ‌ احساس در بدر لے جا جہان پست کو پھر دیکھنے کی خواہش ہے شعور غم مجھے غم کے پہاڑ پر لے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ

    مجھ کو بے خوابی کی ٹہنی پر سسکتے دیکھتا رہتا ہے وہ اپنی ہی بے دردیوں کو یوں مہکتے دیکھتا رہتا ہے وہ صورت مہتاب رہتا ہے مرے سر پر سفر کے ساتھ ساتھ مجھ کو صحرا کی اداسی میں بھٹکتے رہتا ہے وہ پیڑ کی صورت کھڑا رہتا ہے میری موج کی سرحد کے پاس میرے سر پر دھوپ کے نیزے چمکتے دیکھتا رہتا ...

    مزید پڑھیے

    میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے

    میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے تو نے کس تہذیب کے پتھر سے لا باندھا مجھے میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے دست و پا بستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحراؤں میں اے فرات زندگی تو نے یہ کیا بخشا مجھے چند کرنیں جو مرے کاسے میں ہیں ان کے عوض شب ...

    مزید پڑھیے

    یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا

    یہ غم بھی ہے کہ تیرے پیار کا دعویٰ نہیں کرتا خوشی بھی ہے کہ اپنے آپ سے دھوکا نہیں کرتا اگر میں نے تجھے دنیا پہ قرباں کر دیا تو کیا یہاں انسان جینے کے لیے کیا کیا نہیں کرتا جو ان سونے کی دہلیزوں پہ جا کر ختم ہوتی ہیں میں ان گلیوں سے اب تیرا پتہ پوچھا نہیں کرتا وہ جس پر تو نے دو دل ...

    مزید پڑھیے

    شاعری میری تپسیا لفظ ہے برگد مرا

    شاعری میری تپسیا لفظ ہے برگد مرا یہ زمیں ساری زمیں مشفق زمیں معبد مرا میں گیا کی روشنی ہوں میں حرا کا نور ہوں تو فنا کے ہاتھ سے کیوں ناپتا ہے قد مرا دھیان کے گونگے سفر سے بھی نکل جاؤں مگر راستہ روکے کھڑی ہے سانس کی سرحد مرا عمر بھر سورج تھا سر پر دھوپ تھی میرا لباس اب یہ خواہش ...

    مزید پڑھیے

    سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا

    سنبھل کے دیکھا تو کانچ سا جسم کرچیوں میں بٹا ہوا تھا خبر نہیں ہے کہ میرے اندر وہ اک دھماکہ سا کیا ہوا تھا وہ کھو گیا تھا تو یوں لگا تھا کہ عزت نفس لٹ گئی ہے میں روز کے ملنے والے لوگوں میں اک کھلونا بنا ہوا تھا خزاں کی وہ سرد رات بھی میں نے گھر سے باہر گزار دی تھی کہ میرے بستر پہ ...

    مزید پڑھیے

    آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے

    آدھی آدھی رات تک سڑکوں کے چکر کاٹیے شاعری بھی اک سزا ہے زندگی بھر کاٹیے شب گئے بیمار لوگوں کو جگانا ظلم ہے آپ ہی مظلوم بنیے رات باہر کاٹیے جال کے اندر بھی میں تڑپوں گا چیخوں گا ضرور مجھ سے خائف ہیں تو میری سوچ کے پر کاٹیے کوئی تو ہو جس سے اس ظالم کی باتیں کیجیئے چودھویں کا چاند ...

    مزید پڑھیے

    کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا

    کس بھروسے پہ نکلتا گھر سے باہر میں اکیلا چار سو اٹھے ہوئے ہاتھوں میں پتھر میں اکیلا مصلحت زادوں کی ناؤ ساحلوں پر جا لگی ہے رہ گیا سیلاب میں پسر پیمبر میں اکیلا میرے پرچم پر مری رسوائی کی تحریر ہے دشمنوں سے جا ملا ہے میرا لشکر میں اکیلا میں یہ کس کوئے‌ ہراساں میں ہوں تصویر ...

    مزید پڑھیے

    پرائے لوگوں نے طے کر لیا سفر میرا

    پرائے لوگوں نے طے کر لیا سفر میرا کہ میرے پاؤں سے لپٹا رہا ہے گھر میرا میں عمر بھر کا سکوں دے کے بھی رہا مقروض وہ سود خور محبت ہے بار سر میرا میں تیری عمر کے ہر روپ کی امانت ہوں کہ پل رہا ہے تری سیپ میں گہر میرا وہ بے ستوں بھی مری ذات جوئے شیر بھی میں مجھے اجاڑ گیا تیشۂ ہنر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2