Nazar Kanpuri

نظر کانپوری

  • 1948

نظر کانپوری کی غزل

    پھول پہ جب اک تتلی دیکھی اپنی جوانی یاد آئی

    پھول پہ جب اک تتلی دیکھی اپنی جوانی یاد آئی آج نہ جانے پھر کیوں مجھ کو اپنی کہانی یاد آئی زخم کے ٹانکے ٹوٹ گئے سب رات چلی جو پروائی پھر تو چلے تھے زخم مگر پھر تیری نشانی یاد آئی یوں تو سب کچھ بھول چکا ہوں ترک وفا کے بعد مگر درد اٹھا جب دل میں میرے تیری نشانی یاد آئی تیرے کنوارے ...

    مزید پڑھیے

    جاتے جاتے وہ مجھے اپنی نشانی دے گیا

    جاتے جاتے وہ مجھے اپنی نشانی دے گیا زندگی بھر کے لئے آنکھوں میں پانی دے گیا سنتے سنتے داستاں سو جائیں گے سب چارہ گر ختم جو ہوگی نہیں ایسی کہانی دے گیا سر مرے سینے پہ اس نے جب رکھا ہے زندگی اس طرح دریائے دل کو وہ روانی دے گیا بات بھی اتنی کہ بس اس نے کیا مجھ کو سلام ہاں مگر لوگوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2