جھونپڑوں پر مفلسی کے خوب چلاتی ہے دھوپ
جھونپڑوں پر مفلسی کے خوب چلاتی ہے دھوپ ہاں مگر دیکھا کہ زرداروں سے شرماتی ہے دھوپ گردشوں سے تھک کے گھر میں جب پڑا رہتا ہوں میں صحن خانہ میں مرے تلووں کو سہلاتی ہے دھوپ چھین لیتی ہے کبھی چہروں سے گل شادابیاں اور کبھی ٹھٹھرے ہوئے جسموں کو گرماتی ہے دھوپ پھیرتی ہے بستیوں پر ہاتھ ...