مری نظر بس مری نظر تھی مگر تمہاری نظر سے پہلے

مری نظر بس مری نظر تھی مگر تمہاری نظر سے پہلے
وجود سے اپنے بے خبر تھا مگر تمہاری خبر سے پہلے


یہ شب کی تاریکیاں بھی کب سے ترے ہی جلوے کی منتظر ہیں
مگر اے خورشید تاباں تیری ضیا ہو کیونکر سحر سے پہلے


رہے ہو پابند رسم کہنہ کے میکدے میں بھی تم وگرنہ
نگاہ ساقی میں تھا اشارہ بتاؤ دوں میں کدھر سے پہلے


ہجوم ہے میکشوں کا ساقی تری بھی دریا دلی کی خاطر
ہر ایک لب پر یہی صدا ہے ادھر سے پہلے ادھر سے پہلے


جہاں کو ہم نے لہو سے اپنے یہ بزم آرائیاں عطا کیں
کہاں تھی یہ روشنی بتاؤ ہمارے خون جگر سے پہلے


نگر ہوا جل کے خاک سارا کسے خبر ہے خیال کس کو
ہمیں پتہ ہے تو صرف اتنا لگی تھی آگ اپنے گھر سے پہلے


چلوں گا میں ساتھ کارواں کے مگر ذرا ٹھہر جاؤ فیضیؔ
کہاں لٹے گا یہ کارواں پھر یہ پوچھ لوں راہبر سے پہلے