ترے در کے سوا سجدوں کو بہلانے کہاں جاتے

ترے در کے سوا سجدوں کو بہلانے کہاں جاتے
ہم آخر عقدۂ مشکل کو سلجھانے کہاں جاتے


بجز دشت محبت دل کو بہلانے کہاں جاتے
جنہیں ٹھکرا دیا تو نے وہ دیوانے کہاں جاتے


تری بے التفاتی کا کرم ہم پر ہوا ورنہ
دل غم آشنا کو غم سے بہلانے کہاں جاتے


مشیت رزق پہنچاتی نہ گر افلاک میں مجھ کو
تو میرے نام کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے


غنیمت ہے جو رکھ لی بیکسی کی لاج موجوں نے
مری میت کو ورنہ لوگ دفنانے کہاں جاتے


خود اپنی بستیاں ویران کرکے جوش وحشت میں
نہ جاتے چاند پر تو پھر یہ دیوانے کہاں جاتے


اجل کو رحم آیا بیکسوں کے حال پر فیضیؔ
وگرنہ بزم سے اٹھ کر یہ دیوانے کہاں جاتے