نازمظفرآبادی کی غزل

    تمہاری تو بس انگڑائی ہوئی تھی

    تمہاری تو بس انگڑائی ہوئی تھی ہماری جاں پہ بن آئی ہوئی تھی نظر کے وار سے بچنا تھا مشکل مصیبت گھیر کر لائی ہوئی تھی غزل پر میں غزل کہنے لگا تھا طبیعت موج میں آئی ہوئی تھی وہ خود ملنے چلا آیا تھا جس نے نہ ملنے کی قسم کھائی ہوئی تھی بچھڑ کر کس طرح ملنا ہے ہم نے اسے یہ بات سمجھائی ...

    مزید پڑھیے

    اتنی شدت بھی کیا پیاس میں تھی

    اتنی شدت بھی کیا پیاس میں تھی رات اتری ہوئی گلاس میں تھی اس کا میں مستند حوالہ تھا اس کی خوشبو مرے لباس میں تھی کھا گئی وہ تری دعا کا اثر اک رعونت جو التماس میں تھی چاپلوسی منافقت سازش یہ صفت ہر کنیز و داس میں تھی خوف طاری تھا شہر یاروں پر خلقت شہر بھی ہراس میں تھی اس کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2