Natiq Gulavthi

ناطق گلاوٹھی

ناطق گلاوٹھی کی غزل

    ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا

    ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا مے کو مرے سرور سے حاصل سرور تھا میں تھا نشہ میں چور نشہ مجھ میں چور تھا کم مایہ فرد جرم ہے کیا کہئے اے کریم ہم سے کمی ہوئی یہ ہمارا قصور تھا لے جا رہے ہیں دوست مجھے آ رہا ہے دوست کیا موت کو بھی آج ہی مرنا ...

    مزید پڑھیے

    ڈھونڈھتی ہے اضطراب شوق کی دنیا مجھے

    ڈھونڈھتی ہے اضطراب شوق کی دنیا مجھے آپ نے محفل سے اٹھوا کر کہاں رکھا مجھے اے نگاہ مست اس کا نام ہے کیف سرور آج تو نے دیکھ کر میری طرف دیکھا مجھے یار سے ہو کر جدا جور فلک کا غم نہیں ہو چکی وہ بات تھی جس بات کی پروا مجھے ساتھ بھی چھوڑا تو کب جب سب برے دن کٹ گئے زندگی تو نے کہاں آ کر ...

    مزید پڑھیے

    کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا

    کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا وقت کی یہ باتیں ہیں وقت اب کہاں اپنا اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا اے خدا گلہ سن لے اپنی بے نیازی کا آج حال کہتا ہے ایک بے زباں اپنا سو کے رات کاٹی ہے بے کسی کے پہلو میں چاندنی نے دیکھا ہے میرے گھر سماں ...

    مزید پڑھیے

    آیا تو دل وحشی دربند نیاز آیا

    آیا تو دل وحشی دربند نیاز آیا برگشتہ مقدر تھا سر گشتہ ناز آیا اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا نو وارد ہستی اٹھ کس وہم میں بیٹھا ہے ہوتی ہے اذاں سن لے چل وقت نماز آیا برداشتہ خاطر تھا عشرت کی حقیقت سے میں دام مصیبت میں آسودۂ راز آیا راحت ...

    مزید پڑھیے

    رہتے ہیں اس طرح سے غم و یاس آس پاس

    رہتے ہیں اس طرح سے غم و یاس آس پاس میں ان سے دور دور تو یہ میرے پاس پاس یہ بھی نشہ میں کیوں نہ مرے ساتھ چور ہو ساقی خدا کے واسطے رکھ دے گلاس پاس پھر چاک دامنی کی ہمیں قدر کیوں نہ ہو جب اور دوسرا نہیں کوئی لباس پاس چکرا رہا ہے کوچۂ گیسو میں جا کے دل منڈلا رہی ہے موت مسافر کے آس ...

    مزید پڑھیے

    دم کوئی دم کا ہے مہماں الوداع

    دم کوئی دم کا ہے مہماں الوداع درد و غم میرے دل و جاں الوداع آ گلے مل لے کہ پھر ملنا کہاں الفراق اے تیغ عریاں الوداع ہو چکی میری پریشانی کی حد لے اب اے زلف پریشاں الوداع بڑھ گیا سامان ناسازی بہت السلام اے ساز و ساماں الوداع اب ہمیں رو بیٹھ رونا ہو چکا الوداع اے چشم گریاں ...

    مزید پڑھیے

    آ کے بزم ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا

    آ کے بزم ہستی میں کیا بتائیں کیا پایا ہم کو تھا ہی کیا لینا بت ملے خدا پایا ہے مرض تو جو کچھ ہے تھی دوا تو جیسی تھی چارہ ساز کو ہم نے ہاں گھٹا ہوا پایا دوسروں کو کیا کہئے دوسری ہے دنیا ہی ایک ایک اپنے کو ہم نے دوسرا پایا کم سمجھ میں آتے ہیں اب تو اس کے گل بوٹے ہم نے نقش ہستی کو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    مرے غم کی انہیں کس نے خبر کی

    مرے غم کی انہیں کس نے خبر کی گئی کیوں گھر سے باہر بات گھر کی گھٹا جاتا ہے دم رخصت ہوا کون یہ دنیا گرد ہے کس کے سفر کی یہ کیسا کھیل ہے اے چشم پر فن ادھر کیوں ہو گئی دنیا ادھر کی ہنر سیکھا زمانہ عیب کا تھا خطا کی اور ہم نے جان کر کی بہت رسوا ہوئے بس اے دعا بس خوشامد اب نہیں ہوتی اثر ...

    مزید پڑھیے

    خود ہو کے کچھ خدا سے بھی مرد خدا نہ مانگ

    خود ہو کے کچھ خدا سے بھی مرد خدا نہ مانگ رسم دعا یہ ہے کہ دعا لے دعا نہ مانگ نادان ماسوا سے نہ کر التجا نہ مانگ مانگے خدا سے بھی تو خدا کے سوا نہ مانگ میں اپنی بے زری کی ندامت کو کیا کہوں تو اور شرمسار نہ کر اے گدا نہ مانگ ان کا کرم بھی دیکھ لے اپنا بھرم بھی رکھ ہر مدعی سے مانگ مگر ...

    مزید پڑھیے

    اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا

    اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا زندگی کو ایک حالت پر قیام آ ہی گیا اتفاقاً اس گلی سے لے بڑھی عمر رواں میں تو سمجھا تھا کہ اب میرا مقام آ ہی گیا ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا بندگی آموز بزم زندگی بے چارگی آدمی کو جب غرض اٹکی سلام آ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5