اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا

اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا
زندگی کو ایک حالت پر قیام آ ہی گیا


اتفاقاً اس گلی سے لے بڑھی عمر رواں
میں تو سمجھا تھا کہ اب میرا مقام آ ہی گیا


ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا


بندگی آموز بزم زندگی بے چارگی
آدمی کو جب غرض اٹکی سلام آ ہی گیا


انتظام روز عشرت اور کر اے نامراد
عید آتی ہی رہی ماہ صیام آ ہی گیا


رند جانے رند کا ایمان جانے شغل رند
پند گو کے منہ تک آنا تھا حرام آ ہی گیا


ہو گیا ترک طلب کا نام عجز حوصلہ
جس سے ہم ڈرتے رہے وہ اتہام آ ہی گیا


اب کہیں کس سے کہ ان سے بات کرنا ہے گناہ
جب کلام آیا زباں پر لا کلام آ ہی گیا


اول اول خوب دوڑی کشتی اہل ہوس
آخر آخر ڈوب مرنے کا مقام آ ہی گیا


رفعت ہستی کو پستی نے دکھایا آسماں
جھونپڑوں تک اونچے محلوں سے سلام آ ہی گیا


آ گیا ہے اے فلک ذروں کو احساس خودی
میں سمجھتا ہوں کہ وقت انتقام آ ہی گیا


وہ مسلسل اب کہاں تابانیٔ روز نشاط
رہ رو مغرور دیکھا وقت شام آ ہی گیا


حشر سے اچھا رہا اک فتنۂ محشر خرام
پھر تمام آتا نہ آتا ناتمام آ ہی گیا


تلخ کام افزائش شیرینی عشرت ہوئی
آتے آتے ہو کے زہر آلود جام آ ہی گیا


بات کیا چھپتی کہ تھا اپنا جدا طرز کلام
نام آیا بھی نہ تھا ناطقؔ کہ نام آ ہی گیا