Nasir Shahzad

ناصر شہزاد

ناصر شہزاد کی غزل

    دل مٹے پیار کی اپیلوں پر

    دل مٹے پیار کی اپیلوں پر تہمتیں لگ گئیں قبیلوں پر قافلوں کی کتھا کتابوں میں فاصلوں کی صدا فصیلوں پر بھیج سکھیوں کے ہاتھ مت سندیس یوں بھروسہ نہ کر وکیلوں پر سیب چہکار جنگلی چڑیاں رات وادی میں چاند جھیلوں پر اور جی کو پیا ملن کے جتن اور پریتم کا گاؤں میلوں پر کھیلنا چن کے ...

    مزید پڑھیے

    تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے

    تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے جہاں فرق شاہ و گدا نہیں ترے دین کا وہ نظام ہے جنہیں ترے نام کی چاہ ہے یہ زمین ان کی گواہ ہے وہیں کربلا کا وہ دشت ہے وہیں قصر کوفہ و شام ہے کہیں کنکروں کو زبان دے کہیں سچ کو حرف بیان دے در حد حد انعام ہے سر قد قد الہام ہے ترا روپ روح کے ...

    مزید پڑھیے

    نئی نکور نرالی پر

    نئی نکور نرالی پر دل آیا متوالی پر چاند گھٹا کے گھونگھر میں خوشبو ڈالی ڈالی پر کنتھ ملے کجرا مہکا رنگ رچے دیوالی پر رادھا رانی پھول سمان ہری گئے ہریالی پر رمے کرن ریجھے جگنو اکھیاں کجیلی کالی پر دھیان اک بیتے ملن کے دوار لب چائے کی پیالی پر سرسوں سہاگن سونے سے تیتریوں کے ...

    مزید پڑھیے

    یخ بستہ ٹھنڈکوں میں اجالا جڑا ہوا

    یخ بستہ ٹھنڈکوں میں اجالا جڑا ہوا کہرے کے ساتھ راہ پہ کوڑا پڑا ہوا اب بھی بلند تر ہیں سپاہ خدا کے سر پرچم ہے اب بھی چوب علم پر چڑھا ہوا نمرود کی چتا کہیں پاٹا ہے کربلا ہر جگ میں امتحان ہمارا کڑا ہوا بے آبرو ہے فن ابھی آواز بے بدن سر پر ابھی ہے ہجر کا بادل کھڑا ہوا چاہت کی انتہا ...

    مزید پڑھیے

    پھر لہلہا اٹھا سمے آموں پہ بور کا

    پھر لہلہا اٹھا سمے آموں پہ بور کا جانے سکھی کب آئے مسافر وہ دور کا اس گاؤں کے نشیب میں بہتی ہے اک ندی ندی پہ ایک پیڑ جھکا ہے کھجور کا نیلم سی مرگ نین نگہ دل کے آر پار جیون کے ارد گرد کرن کنڈ نور کا اک پل ملاپ پھر کڑے کڑوے کٹھن ویوگ مقصد تھا بس یہی ترے میرے ظہور کا پکی سڑک کے ...

    مزید پڑھیے

    دل کو جب آگہی کی آگ لگے

    دل کو جب آگہی کی آگ لگے تب سخن سوچ کو سہاگ لگے ان بھری بستیوں کے لوگ مدام ان ہری کھیتیوں کو بھاگ لگے منتشر ہو تو گر میں گیان کہاں سر ملیں سب تو ایک راگ لگے ہونٹ گوری کے رس بھرے انجیر لٹ کا لچھا لٹک کے ناگ لگے کشٹ ٹوٹے تو شاعری چھوٹے آب ٹھہرے تو جم کے جھاگ لگے ہاتھ کنگن کو آرسی ...

    مزید پڑھیے

    دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے

    دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ ...

    مزید پڑھیے

    اور سفر لمبا ہوا ہر گام پر

    اور سفر لمبا ہوا ہر گام پر تھک کے جب بیٹھے کبوتر بام پر آ سکھی دہرائیں پھر بچپن کے دن آ سکھی ڈالیں ہنڈولے آم پر یہ الگ دفتر میں جا کر گم ہوئے خیر سے لگ تو گئے وہ کام پر ایک کاٹا رام نے سیتا کے ساتھ دوسرا بن باس میرے نام پر گیارہویں کے چاند تو چمکا تو تھا شاہ کے لٹتے ہوئے خیام ...

    مزید پڑھیے

    رنگ اور روپ کے پردیپ میں کھونے دے مجھے

    رنگ اور روپ کے پردیپ میں کھونے دے مجھے خود کو چاہت کی چڑھی رو میں ڈبونے دے مجھے تو اگر خوش ہے تو جا قافیہ پیمائی کر شعر کو روح کی لڑیوں میں پرونے دے مجھے پریت کا انت بچھڑنا ہے مگر اور ابھی اپنی باہوں کے کنول کنڈ میں سونے دے مجھے چوم کر اس کے مدھر ہونٹوں کی رس ونت لویں ذہن کو نشوں ...

    مزید پڑھیے

    رت نے روایت کے رخ بدلے ہر مسعود سعود گیا

    رت نے روایت کے رخ بدلے ہر مسعود سعود گیا صدقوں سے مفقود ہوئے دل معبد سے معبود گیا دو فصلیں دو ندی کنارے آپس میں کیا ان کا رشتہ گھر میں گری جب املی پک کر باغ سے تب امرود گیا موت محبت کی ور مالا چتا سوئمبر آگ دوشالا پیار پیا کی پریت کا پیاسا نار انہار میں کود گیا چاٹی اور چولہا سب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5