Nasir Shahzad

ناصر شہزاد

ناصر شہزاد کی غزل

    لہو میں سادھ ست کو بھر رہا ہوں

    لہو میں سادھ ست کو بھر رہا ہوں کوئی حجرہ چراغاں کر رہا ہوں جھٹک کر دل سے سارے لوبھ لالچ یہاں بن باس میں بہتر رہا ہوں عذاب آخرت کی بات آگے عتاب زندگی سے ڈر رہا ہوں مری پہچان میرا گیان ہجرت سدا اوسان میں بے گھر رہا ہوں کوئی دیکھے نہ آ کر داغ حسرت بدن پر اوڑھ کر چادر رہا ہوں ملوث ...

    مزید پڑھیے

    نس نس میں نشہ پیار کا معمور ہوا ہے

    نس نس میں نشہ پیار کا معمور ہوا ہے دل تیرے ملن کے لیے مجبور ہوا ہے وادی میں برس کر ابھی برسات چھٹی ہے چڑیوں کی چہک سے سمے مسرور ہوا ہے آنکھوں کی گزر گاہ سے در آیا ہے دل میں تو میرے تصرف سے بہت دور ہوا ہے سو بار ترا میرا فسانہ ہوا یکجا سو بار مرے سنگ تو مذکور ہوا ہے تو رنگ مہک روپ ...

    مزید پڑھیے

    بدن سندر سجل مکھ پر سنہاپا

    بدن سندر سجل مکھ پر سنہاپا بہت انمول ہے اس کا سراپا سفر کی ابتدا بھی انتہا بھی وہی لوٹا کھسوٹی آپی دھاپا تو دیوی ہے نہ میں اوتار پھر بھی تجھے ہر جگ جنم میں جی نے جاپا جھروکوں سے اگر پڑوسی نہ جھانکیں ابھاگن تو بتا ہی لے رنڈاپا سکھی ری ہو نہ ہو سیاں ہے میرا ملن سر جس نے مرلی میں ...

    مزید پڑھیے

    چھتیس سال کا بھی سنیاس چھین کر

    چھتیس سال کا بھی سنیاس چھین کر یہ کون لے گیا مرا بن باس چھین کر اے شاہ کربلا مری امداد کو اب آ خوش ہے غنیم مجھ سے مری پیاس چھین کر سایہ نہ ہو تو دھوپ جلاتی ہے جسم کو تم کیا کرو گے دھرتی سے آکاس چھین کر جینے کی جو امنگ تھی وہ بھی نہیں رہی بے آس کر گیا کوئی ہر آس چھین کر تم نے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5