Naseer Turabi

نصیر ترابی

قبول پاکستانی سیریل ہمسفر کے ٹائٹل گیت اور غزل "وہ ہمسفر تھا مگر۔۔۔۔۔۔ کے مشہور شاعر

Pakistani poet famous for the ghazal “Wo hamsafar tha magar…” in the famous Pakistani TV serial “Hamsafar”

نصیر ترابی کی غزل

    سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو

    سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو مرے دیار سے گزری جو اے کرن پھر تو لباس جاں میں نہیں شعلگی کا رنگ مگر جھلس رہا ہے مرے ساتھ کیوں بظاہر تو وفائے وعدہ و پیماں کا اعتبار بھی کیا کہ میں تو صاحب ایماں ہوں اور منکر تو مرے وجود میں اک بے زباں سمندر ہے اتر کے دیکھ سفینے سے میری خاطر ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا

    ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں

    میں بھی اے کاش کبھی موج صبا ہو جاؤں اس توقع پہ کہ خود سے بھی جدا ہو جاؤں ابر اٹھے تو سمٹ جاؤں تری آنکھوں میں دھوپ نکلے تو ترے سر کی ردا ہو جاؤں آج کی رات اجالے مرے ہمسایہ ہیں آج کی رات جو سو لوں تو نیا ہو جاؤں اب یہی سوچ لیا دل میں کہ منزل کے بغیر گھر پلٹ آؤں تو میں آبلہ پا ہو ...

    مزید پڑھیے

    مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے

    مرہم وقت نہ اعجاز مسیحائی ہے زندگی روز نئے زخم کی گہرائی ہے پھر مرے گھر کی فضاؤں میں ہوا سناٹا پھر در و بام سے اندیشۂ گویائی ہے تجھ سے بچھڑوں تو کوئی پھول نہ مہکے مجھ میں دیکھ کیا کرب ہے کیا ذات کی سچائی ہے تیرا منشا ترے لہجے کی دھنک میں دیکھا تری آواز بھی شاید تری انگڑائی ...

    مزید پڑھیے

    تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے

    تجھے کیا خبر مرے بے خبر مرا سلسلہ کوئی اور ہے جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے وہ گریز پا کوئی اور ہے مرے موسموں کے بھی طور تھے مرے برگ و بار ہی اور تھے مگر اب روش ہے الگ کوئی مگر اب ہوا کوئی اور ہے یہی شہر شہر قرار ہے تو دل شکستہ کی خیر ہو مری آس ہے کسی اور سے مجھے پوچھتا کوئی اور ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

    وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2