Naseem Sahar

نسیم سحر

  • 1944

نسیم سحر کی غزل

    بوند پانی کو مرا شہر ترس جاتا ہے

    بوند پانی کو مرا شہر ترس جاتا ہے اور بادل ہے کہ دریا پہ برس جاتا ہے آتشیں دھوپ سے ملتی ہے کبھی جس کو نمو وہی پودا کبھی بارش سے جھلس جاتا ہے راہ تشکیل وہ ارباب وفا نے کی تھی اب جہاں قافلۂ اہل ہوس جاتا ہے ہو چکی بوئے وفا شہر سے رخصت کب کی کوئی دن ہے کہ پھلوں میں سے بھی رس جاتا ...

    مزید پڑھیے

    جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی

    جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی کاغذی پھول پہ کچھ سوچ کے تتلی آئی سبز پتوں نے بھی شاخوں سے بغاوت کر دی آج اس شہر میں کس زور کی آندھی آئی اب یہ بستی ہوئی دیواروں کی کثرت کا شکار اب یہاں رہنے میں بے طرح خرابی آئی قہقہہ شب نے لگایا ہے بڑے طنز کے ساتھ صبح جب اپنی رہائی پہ بھی روتی ...

    مزید پڑھیے

    آپ ہی اپنا سفر دشوار تر میں نے کیا

    آپ ہی اپنا سفر دشوار تر میں نے کیا کیوں ملال فرقت دیوار و در میں نے کیا میرے قد کو ناپنا ہے تو ذرا اس پر نظر چوٹیاں اونچی تھیں کتنی جن کو سر میں نے کیا چل دیا منزل کی جانب کارواں میرے بغیر اپنے ہی شوق سفر کو ہم سفر میں نے کیا منزلیں دیتی نہ تھیں پہلے مجھے اپنا سراغ پھر جنوں میں ...

    مزید پڑھیے

    تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی

    تھکے ہوؤں کو جو منزل کٹھن زیادہ ہوئی سفر کا عزم مصمم لگن زیادہ ہوئی اداس پیڑوں نے پتوں کی بھینٹ دے دی ہے خزاں میں رونق صحن چمن زیادہ ہوئی زباں پہ حبس کی خواہش مچل مچل اٹھی ہوا چلی تو گھروں میں گھٹن زیادہ ہوئی سفر کا مرحلۂ سخت ہی غنیمت تھا ٹھہر گئے تو بدن کی تھکن زیادہ ...

    مزید پڑھیے

    مکیں تھا وہ تو محبت کی بارگاہ تھا دل

    مکیں تھا وہ تو محبت کی بارگاہ تھا دل پھر اس کے بعد کوئی خانۂ تباہ تھا دل یہاں بھی آ کے غم یار نے ٹھکانہ کیا مرے لیے تو یہی اک پناہ گاہ تھا دل بضد اسی پہ تھا چلنا ہے کوئی جاناں کو جو میں نے راستہ بدلا تھا سد راہ تھا دل بنا لیا ہے اسے بھی حمایتی اس نے وگر نہ پہلے بڑا میرا خیر خواہ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی تو ذہن کے در پر ضرور دستک دے

    کوئی تو ذہن کے در پر ضرور دستک دے اگر شعور نہ دے لا شعور دستک دے طلوع صبح کا منظر عجیب ہوتا ہے جب آسماں سے صدائے طیور دستک دے اس انتظار میں ہے میرا قصر بے خوابی کہ کوئی نیند پری کوئی حور دستک دے فصیل شہر تمنا کی تیرگی بھی چھٹے کبھی تو اس پہ کوئی صبح نور دستک دے پھر ایک بار عذاب ...

    مزید پڑھیے

    جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے

    جو یاد یار سے گفت و شنید کر لی ہے تو گویا پھول سے خوشبو کشید کر لی ہے جدائیوں میں بھی ڈھونڈی ہیں قربتیں میں نے ضرر رساں تھی جو شے وہ مفید کر لی ہے نہیں کھلے تھے جو منظر مری بصارت پر تصورات میں ان کی بھی دید کر لی ہے ستارے ٹانک دیے ہیں فلک کی چادر پر اور اپنی چادر شب بے نوید کر لی ...

    مزید پڑھیے

    سورج کے ہم سفر ہیں ہماری امنگ یہ

    سورج کے ہم سفر ہیں ہماری امنگ یہ اور سامنے ہمارے ہے کالی سرنگ یہ میری طرح یہ دل کے لہو میں نہائے ہیں بے وجہ تو نہیں ہے گلابوں کا رنگ یہ اس معرکے میں کام جو ہم آ گئے تو کیا جاری رہے گی بعد ہمارے بھی جنگ یہ اک لمس مل گیا تھا مجھے تیرے دھیان کا اب عمر بھر اترنے نہیں دوں گا رنگ ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے

    دھوپ سے جسم بچائے رکھنا کتنا مشکل ہے خود کو سائے سائے رکھنا کتنا مشکل ہے ظاہر میں جو رستہ سیدھا لگتا ہو اس پر اپنے پیر جمائے رکھنا کتنا مشکل ہے آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے ہم سے پوچھو ہم دل کو سمجھایا کرتے تھے وحشی کو سمجھائے رکھنا ...

    مزید پڑھیے

    سامنے آنکھوں کے رقصاں تھا تماشا دوسرا

    سامنے آنکھوں کے رقصاں تھا تماشا دوسرا اور منظر میں نے دنیا کو دکھایا دوسرا لمحۂ فرصت ملے تو غور کرنا چاہئے بام و در کس کے چمن میں کون آیا دوسرا رقص آسیب فنا جاری یہاں جب سے ہوا ڈھونڈھتی ہیں اب ہوائیں بھی ٹھکانہ دوسرا خود شناسی کے مراحل طے نہ ہو پائے اگر میں بھی ہو جاؤں گا شاید ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2