Naseem Sahar

نسیم سحر

  • 1944

نسیم سحر کی غزل

    قبائے جاں پرانی ہو گئی کیا

    قبائے جاں پرانی ہو گئی کیا حقیقت بھی کہانی ہو گئی کیا فسردہ پھر ہے اس بستی کا موسم کہیں پھر ناگہانی ہو گئی کیا دیے اب شہر میں روشن نہیں ہیں ہوا کی حکمرانی ہو گئی کیا روابط دھوپ سے ہیں اب تمہارے بہت بے سائبانی ہو گئی کیا نسیمؔ اس شخص سے محروم ہو کر تری جادو بیانی ہو گئی کیا

    مزید پڑھیے

    وہ ایک لمحہ کہ مشکل سے کٹنے والا تھا

    وہ ایک لمحہ کہ مشکل سے کٹنے والا تھا میں تنگ آ کے زمیں میں سمٹنے والا تھا مرا وجود مزاحم تھا چاروں جانب سے اسی لیے تو میں رستے سے ہٹنے والا تھا میں تخت عشق پہ فائز تھا جانتا تھا کہاں کہ ایک دن مرا تختہ الٹنے والا تھا جو بات کی تھی ہوا میں بکھرنے والی تھی جو خط لکھا تھا وہ پرزوں ...

    مزید پڑھیے

    بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا

    بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا لیے ہوئے ہیں سبھی اپنا سر ہتھیلی پر کسے خبر ہے کہاں کون مارا جائے گا عجیب معرکہ برپا ہے، کچھ خبر ہی نہیں کسے ملے گی اماں کون مارا جائے گا نماز پڑھنے کی مہلت ملے، ملے نہ ملے! نہ جانے وقت اذاں کون مارا جائے گا جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2