مکیں تھا وہ تو محبت کی بارگاہ تھا دل
مکیں تھا وہ تو محبت کی بارگاہ تھا دل
پھر اس کے بعد کوئی خانۂ تباہ تھا دل
یہاں بھی آ کے غم یار نے ٹھکانہ کیا
مرے لیے تو یہی اک پناہ گاہ تھا دل
بضد اسی پہ تھا چلنا ہے کوئی جاناں کو
جو میں نے راستہ بدلا تھا سد راہ تھا دل
بنا لیا ہے اسے بھی حمایتی اس نے
وگر نہ پہلے بڑا میرا خیر خواہ تھا دل
ستم تو یہ ہے کہ اس کا ہی نام لیوا تھا
جب اختیار میں میرے بھی گاہ گاہ تھا دل
ملال ہوتا بھی کیا اس کے فیصلے پہ مجھے
زمانہ ایک طرف تھا مرا گواہ تھا دل