Naseem Bharat Puri

نسیم بھرتپوری

  • 1861 - 1909

نسیم بھرتپوری کی غزل

    بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں

    بیتاب ہیں کسی کی نگاہیں نقاب میں ہیں بجلیاں کہ کوند رہی ہیں سحاب میں لکھوں گا خط میں خوب عدو کی برائیاں ہو کر خفا وہ کچھ نہ لکھیں گے جواب میں ہم کو ہے ان کی فکر تو ان کو عدو کی فکر دونوں ہیں ایک سلسلۂ اضطراب میں اس چھیڑ کے نثار کہ سن کر سوال وصل آئینہ رکھ دیا مرے آگے جواب ...

    مزید پڑھیے

    دے دیں ابھی کرے جو کوئی خوب رو پسند

    دے دیں ابھی کرے جو کوئی خوب رو پسند ہم کو نہیں پسند دل آرزو پسند مانند اشک خاک میں آخر ملا دیا آئی نہ آسماں کو مری آبرو پسند تم نے وہاں رقیب کو پہلو میں دی جگہ یاں رہ گیا تڑپ کے دل آرزو پسند عشاق سے وہ پوچھتے ہیں تیغ تول کر ہے زخم سر پسند کہ زخم گلو پسند قربان اس ادا کے وہ کہتے ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی گر عدو کی غلامی کریں گے

    یوں ہی گر عدو کی غلامی کریں گے وہ حاصل بڑی نیک نامی کریں گے کریں گے دلیلیں وہاں خوب ناصح انہیں کو ہم اپنا پیامی کریں گے اجازت بھی دے ان کو تنگی دہن کی وہ کس منہ سے شیریں کلامی کریں گے عدو نے کیا غسل صحت سنا ہے وہ جلسہ بڑا دھوم دھامی کریں گے علیؔ کا وسیلہ ہے دونوں جہاں میں نسیمؔ ...

    مزید پڑھیے

    میرے تڑپنے نے تماشا کیا

    میرے تڑپنے نے تماشا کیا وہ نگہ شوق سے دیکھا کیا اشک نے کیں عشق کی غمازیاں راز دروں آنکھ نے افشا کیا بل بے خلش خنجر بیداد کی سینہ کو لبریز تمنا کیا جو نہ ہوا آپ سے بہتر ہوا جو نہ کیا آپ نے اچھا کیا وعدۂ جانبازئ الفت نسیمؔ تو نے یہ دیوانے ستم کیا کیا

    مزید پڑھیے

    ہم یار کی غیروں پہ نظر دیکھ رہے ہیں

    ہم یار کی غیروں پہ نظر دیکھ رہے ہیں گو منہ پہ نہ لائیں گے مگر دیکھ رہے ہیں منہ میری طرف ہے تو نظر غیر کی جانب کرتے ہیں کدھر بات کدھر دیکھ رہے ہیں کے روز رقیبوں سے نبھی رسم محبت ہم بھی یہی اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں قاصد سے جو بیمار بہت مجھ کو سنا تھا اخبار میں مرنے کی خبر دیکھ رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3