سب لطف ہے خاک زندگی کا
سب لطف ہے خاک زندگی کا ہو خانہ خراب عاشقی کا ہر وقت کی ضد بری ہے دیکھو کہنا بھی کیا کرو کسی کا یوں داد وہ دیتے ہیں وفا کی یہ کام نہیں ہے آدمی کا دل کش نہ ہوں کیوں نسیمؔ کے شعر شاگرد ہے داغؔ دہلوی کا
سب لطف ہے خاک زندگی کا ہو خانہ خراب عاشقی کا ہر وقت کی ضد بری ہے دیکھو کہنا بھی کیا کرو کسی کا یوں داد وہ دیتے ہیں وفا کی یہ کام نہیں ہے آدمی کا دل کش نہ ہوں کیوں نسیمؔ کے شعر شاگرد ہے داغؔ دہلوی کا
ذکر دشمن ہے ناگوار کسے تم سناتے ہو بار بار کسے مانگ لوں عمر خضر سے لیکن تیرے وعدے کا اعتبار کسے ہائے بے چپن کر دیا دم خواب تو نے اے آہ شعلہ بار کسے گالیاں دے رہے ہیں ہونٹوں میں اس ادا پر نہ آئے پیار کسے ہے نسیمؔ ایک سنگ دل وہ بت دل کو دیتا ہے میرے یار کسے
جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا زمیں پر کوئی تم سا پیدا نہ ہوگا شراب محبت کو اے زاہدو تم برا گر کہو گے تو اچھا نہ ہوگا سر بزم دشنام دشمن کو دے کر مجھے تم نے کیا دل میں کوسا نہ ہوگا مری بے قراری کو کیا دیکھتے ہو کبھی برق کو تم نے دیکھا نہ ہوگا نسیمؔ اور کچھ فکر کیجے خدارا اب ...
ہوں گے دل و جگر میں نشاں دیکھ لیجئے تیر نظر پڑے ہیں کہاں دیکھ لیجئے باغ جناں میں لطف اذیت بھلا کہاں دنیا میں سیر جور بتاں دیکھ لیجئے آہیں نکل رہی ہیں دل درد ناک سے فوج غم و الم کا نشاں دیکھ لیجئے پردے ہی سے نہ آئیں وہ باہر تو پھر انہیں کس طرح دیکھ لیجے کہاں دیکھ لیجئے ہندوستاں ...
جور پیہم کی انتہا بھی ہے ایک کے بعد دوسرا بھی ہے غیر نے بزم یار میں ہم سے کچھ کہا ہے تو کچھ سنا بھی ہے شوق سے دل مرا کرو پامال یہی کمبخت کی سزا بھی ہے ان کی ترچھی نظر سے ڈرتا ہوں یہ ادا ہی نہیں قضا بھی ہے کہتے ہیں وہ جو پوچھتا ہوں مزاج آپ سے کوئی بولتا بھی ہے نہیں واقف نسیمؔ سے ...
غیر کے گھر ہیں وہ مہمان بڑی مشکل ہے جان جانے کے ہیں سامان بڑی مشکل ہے کہتے ہیں آپ ہیں جس بات کے طالب ہم سے ہے وہی غیر کو ارمان بڑی مشکل ہے اور پھر کس سے کہوں حال پریشانیٔ دل تم تو ہوتے ہو پریشان بڑی مشکل ہے بے ملے کام بھی چلتا نہیں ملنا بھی ضرور غیر سے جان نہ پہچان بڑی مشکل ہے اس ...
ہجر میں جب خیال یار آیا لب پہ نالہ ہزار بار آیا پھر صفائی کی کون سی صورت آپ کے دل میں جب غبار آیا کیجئے ذبح کھینچیے خنجر لیجئے یہ گناہ گار آیا بولے ٹھکرا کے میرے مرقد کو اب تجھے کس طرح قرار آیا تو نے حاصل نسیمؔ کچھ نہ کیا کچھ بھی تجھ کو نہ میرے یار آیا
ذکر ایفا کچھ نہیں وعدہ ہی وعدہ ہم سے ہے رات دن شام و سحر امروز فردا ہم سے ہے ہم نہ کہتے تھے کہ یہ جور و جفا اچھی نہیں پوچھ کچھ روز جزا اب تم سے ہے یا ہم سے ہے دوسروں کے کہنے سننے پر نہ تم جاؤ نہ ہم تم سے بس کہنا ہمارا ہے تمہارا ہم سے ہے شرم وصل غیر سے اٹھتی نہیں اونچی نظر درد سر ...
شب فرقت قضا نہیں آتی لاکھ کہتا ہوں آ نہیں آتی چپ ہیں وہ سن کے شکوۂ اغیار بات بھی تو بنا نہیں آتی وہ تو وعدے پہ آ چکے اے موت تو بھی آتی ہے یا نہیں آتی کس مرض کی دوا ہیں آپ اگر درد دل کی دوا نہیں آتی شیشۂ دل ہے کس قدر نازک ٹوٹنے کی صدا نہیں آتی ہم ہیں آزادہ رو جہاں میں نسیمؔ یاں ...
کیا خاک کہوں مطلب دل دار کے آگے سو اور سنائے گا وہ اغیار کے آگے بولا تھا جو آغاز محبت میں بڑا بول آیا وہی آخر دل بیمار کے آگے روکا ہی کیا ضبط محبت سر محفل سر جھک ہی گیا اس بت عیار کے آگے پیدا نہیں دنیا میں دوائے مرض عشق کیا لوگ نہ ہوتے تھے اس آزار کے آگے فریادئ بیداد جفا جان کے ...