Naseem Abbasi

نسیم عباسی

نسیم عباسی کی غزل

    کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں

    کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں دست شب فراق میں سائے ہی سائے ہیں گلزار زندگی کے ہیں گلدان کے نہیں یہ پھول کار خانۂ قدرت سے آئے ہیں خستہ ہوئے تنے تو جڑیں پھوٹنے لگیں پیڑوں نے اپنے اپنے بدن پھر اگائے ہیں سامان بود و باش تھا جنگل سے شہر تک ہم اپنا بوجھ نفس کے گھوڑوں پہ لائے ...

    مزید پڑھیے

    جس وقت اس نے بخت ہمارے بنائے تھے

    جس وقت اس نے بخت ہمارے بنائے تھے ہم نے ہتھیلیوں پہ ستارے بنائے تھے کچھ پنچھیوں نے گھونسلے پیڑوں کے جھنڈ میں اونچی جگہوں پہ خوف کے مارے بنائے تھے میں نے بس ایک نہر نکالی تھی ہاتھ سے دریا نے آپ اپنے کنارے بنائے تھے حسب مراد دست ہنر بولنے لگا گونگے نے چند ایسے اشارے بنائے ...

    مزید پڑھیے

    جہاں جہاں بھی ہوس کا یہ جانور جائے

    جہاں جہاں بھی ہوس کا یہ جانور جائے دلوں سے مہر و محبت کی فصل چر جائے کھلے ہیں اونچی حویلی کے پالتو کتے فقیر راہ ذرا دیکھ بھال کر جائے وہیں سے ہوں میں جہاں سے دکھائی دیتا ہوں وہیں تلک ہوں جہاں تک مری نظر جائے ہے کوئی دیر سے اس پار منتظر میرا رکا ہوا ہوں کہ ندی ذرا اتر جائے وہ ...

    مزید پڑھیے

    اتنا نہ گھوم رات کو پھولوں کی باس میں

    اتنا نہ گھوم رات کو پھولوں کی باس میں سوئے پڑے ہیں چاروں طرف سانپ گھاس میں ہر سمت اس نے آتشی شیشے لگا دیے سڑکوں پہ لوگ آئے تھے کالے لباس میں گردش میں زندگی رہی افواہ کی طرح عمریں گزار دی گئیں خوف و ہراس میں اگلا نصاب نور بصیرت سے پڑھ لیا آنکھیں تو چھوڑ آئے تھے پہلی کلاس میں یہ ...

    مزید پڑھیے

    میں ایسا ذوق زیبائش بروئے کار لے آیا

    میں ایسا ذوق زیبائش بروئے کار لے آیا کہ خود آرائی کی خاطر لباس دار لے آیا زمیں کی محوری گردش سے عمریں گھٹتی بڑھتی ہیں گزرتا وقت سائے کو پس دیوار لے آیا مگر مجھ کو یہ احساس ندامت مار ڈالے گا پرائے پیڑ سے پھل توڑ کر دو چار لے آیا یہ سارے لوگ اس کے حق میں رائے دینے والے ہیں وہ اپنی ...

    مزید پڑھیے

    چھوٹے بڑے برے بھلے دن رات کے لیے

    چھوٹے بڑے برے بھلے دن رات کے لیے ہر شے ہے صرف صورت حالات کے لیے موجود ہیں اس آئینہ خانہ میں ہر طرف میرے ہی عکس میری ملاقات کے لیے جو بات سوچنے کی ہے کب سوچتا ہوں میں کب سوچتا ہے کوئی میری ذات کے لیے پھرتی ہیں دل میں صورتیں قرب و جوار کی آباد ہے یہ شہر مضافات کے لیے چھوٹے سے پیڑ ...

    مزید پڑھیے

    کہہ گیا تھا وہ کچھ اشارے سے

    کہہ گیا تھا وہ کچھ اشارے سے بات سمجھائیں ہنستے تارے سے اس سے ملتے ہی آنکھ بھر آئی لہر اک آ لگی کنارے سے گالیاں اب وہ کیوں نہیں دیتے کیا خطا ہو گئی ہمارے سے کس کو جا کر بتاؤں میں یہ بات دن گزرتا نہیں گزارے سے بھول جاتے ہو نام تک میرا کیا توقع رکھوں تمہارے سے

    مزید پڑھیے

    وہ میرے ذہن پہ اتنا سوار ہو گیا تھا

    وہ میرے ذہن پہ اتنا سوار ہو گیا تھا میں کم سنی میں جنوں کا شکار ہو گیا تھا کرے گا کون تری وسعتوں کا اندازہ جو ہم کنار ہوا بے کنار ہو گیا تھا تمام عمر پھر اپنی تلاش میں گزری میں اپنے آپ سے اک دن فرار ہو گیا تھا مجھے گنوا کے لیا دل نے سوجھ بوجھ سے کام فضول خرچ کفایت شعار ہو گیا ...

    مزید پڑھیے

    بدن کا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے

    بدن کا کام تھوڑا ہے مگر مہلت زیادہ ہے سو جو غفلت زیادہ تھی وہی غفلت زیادہ ہے ہمیں اس عالم ہجراں میں بھی رک رک کے چلنا ہے انہیں جانے دیا جائے جنہیں عجلت زیادہ ہے نہ جانے کب کسی چلمن کا ہم نقصان کر بیٹھیں ہمیں چہرا کشائی کی ذرا رخصت زیادہ ہے کبھی میں خود زیادہ ہوں تن تنہا کی وحدت ...

    مزید پڑھیے

    دوست بن کر بھی کہیں گھات لگا سکتی ہے

    دوست بن کر بھی کہیں گھات لگا سکتی ہے موت کا کیا ہے کسی روپ میں آ سکتی ہے ان مکانوں میں یہ دھڑکا سا لگا رہتا ہے اگلی بارش در و دیوار گرا سکتی ہے تیرا دن ہو کہ مری رات نہیں رک سکتے اپنے محور پہ زمیں خود کو گھما سکتی ہے ایسی ترتیب سے روشن ہیں تری محفل میں ایک ہی پھونک چراغوں کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2