کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں
کس برج میں فلک نے ستارے ملائے ہیں دست شب فراق میں سائے ہی سائے ہیں گلزار زندگی کے ہیں گلدان کے نہیں یہ پھول کار خانۂ قدرت سے آئے ہیں خستہ ہوئے تنے تو جڑیں پھوٹنے لگیں پیڑوں نے اپنے اپنے بدن پھر اگائے ہیں سامان بود و باش تھا جنگل سے شہر تک ہم اپنا بوجھ نفس کے گھوڑوں پہ لائے ...